الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ
از قلم : عبد العظیم جانباز
جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کار فرما ہیں، اسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ انسان کے ” احسن تقویم ” کی شان کے ساتھ منصۂ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اس کی زندگی ایک ارتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء (Chemical evolution) کا دَور ہے، جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے، یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں، جب کہ قرآنِ مجید انہیں چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔
کیمیائی ارتقاء کے مراحل
قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم و بیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:
- تراب Inorganic matter
- ماء Water
- طین Clay
- طین لازب Adsorbale clay
- صلصال من حماء مسنون Old physically and chemically altered mud
- صلصال کالفخار Dried and highly purified clay
- سلالہ من طین Extract purified clay
قرآنِ مجید مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذکر مختلف مقامات پر یوں کرتا ہے:
1۔ تراب (Inorganic matter)
اللہ رب العزت نے اِنسان کے اوّلین جوہر کو غیر نامی مادّے سے تخلیق کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٖ (المومن:67)
” وہی ہے جس نے تمہیں مٹی ( یعنی غیر نامی مادّے ) سے بنایا۔”
اس آیت کریمہ میں آگے حیاتیاتی ارتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مثلاً ( ثُمَّ مِن نُّطۡفَةٖ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٖ ثُمَّ
يُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلٗا ) لیکن قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی کے ان ارتقائی مرحلوں کا ذکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربُّ العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے پہلی آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں:
وَأُمِرۡتُ أَنۡ أُسۡلِمَ لِرَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ٦٦
(المومن:66)
” اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اس کے سامنے گردن جھکاؤں جو سارے عوالم اور اُن کے مظاہر حیات کو درجہ بدرجہ مرحلہ وار کمال تک پہنچانے والا ہے۔”
2۔ ماء (Water)
یہاں اللہ رب العزت نے اپنی شانِ ربُّ العالمین کے ذکر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر انسانی زندگی کے اِرتقاء کا ذکر کر دیا ہے، جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآن مجید باری تعالیٰ کے رب المعالمین ہونے کو انسانی زندگی کے نظام راتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، کہ اے نسل بنی آدم ! ذرا اپنی زندگی کے ارتقاء کے مختلف ادوار و مراحل پر غور کرو کہ تمہیں کسی طرح مرحلہ وار اپنی تکمیل کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بالآخر ” احسن تقویم ” کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ ” رب العالمین ” کی پرورش کا مظہر نہیں ہے جس نے بجائے خود ایک عالم بنا دیا ہے!
یوں تو ہر جاندار کی تخلیق میں پانی ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی تخلیق میں بطورِ خاص پانی کا ذکر کیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَهُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ مِنَ ٱلۡمَآءِ بَشَرٗا (الفرقان:54)
” اور وہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔”
اس آیت کریمہ میں بھی تخلیقِ انسانی کے مرحلے کے ذِکر کے بعد باری تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بیان ہے:
وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرٗا ٥٤ (الفرقان : 54)
” اور تمہارا رب قدرت والا ہے۔”
گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیقِ انسانی کا یہ سلسلہ اللہ ربُّ العزت کے نظامِ ربوبیت کا مظہر ہے۔
انسان کے علاوہ کرۂ ارض پر بسنے والی لاکھوں کروڑوں مخلوقات کی اوّلین تخلیق میں بھی پانی کی وہی اہمیت ہے جتنی انسان کی کیمیائی تخلیق میں۔ اس سلسلے میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
وَجَعَلۡنَا مِنَ ٱلۡمَآءِ كُلَّ شَيۡءٍ حَيٍّۚ أَفَلَا يُؤۡمِنُونَ ٣٠ ( الانبیاء : 30)
” اور ہم نے ( زمین پر ) ہر زندہ چیز کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ ( ان حقائق سے آگاہ ہو کر بھی ) ایمان نہیں لاتے؟۔”
یہ آیتِ کریمہ حیاتِ انسانی یا حیاتِ ارضی کے اِرتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لیے دعوتِ فکر بھی ہے اور دعوتِ ایمانی بھی۔
3۔ طین(Clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں "تراب” اور "ماء” بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں عناصر کے مِکس ہو جانے پر "طین” کو وُجود ملا۔ "طین” کا ذِکر اللہ ربّ العزت نے قرآنِ حکیم میں یوں کیا ہے:
هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٖ ( الانعام : 2 )
” ( اللہ ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔”
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مترجمین قرآن نے بالعموم "تُرَاب” اور "طِیْن” دونوں کا معنی مٹی کیا ہے، جس سے ایک مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا یہ دو الگ مرحلے ہیں یا ایک ہی مرحلے کے دو مختلف نام ؟ اس لیے ہم نے دونوں کے امتیاز کو برقرار رکھنے کے لیے "طِین” کا معنی "مٹی کا گارا” کیا ہے۔ تُراب اصل میں خشک مٹی کو کہتے ہیں، امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
” التراب الارض نفسها۔"
” تراب سے مراد فی نفسہ زمین ہے۔”
جب کہ "طین” اس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی ہو، جیسا کہ مذکور ہے:
” الطین : التراب و الماء المختلط۔” (المفردات:312)
” مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اُسے ”طین” کہتے ہیں۔”
اسی طرح کہا گیا ہے:
” الطین : التراب الذی یجبل بالماء۔" (المنجد:496)
” طین سے مراد وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔”
اسی حالت کو گارا کہتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہو جاتی ہے:
مٹی………… پانی………… گارا
4۔ طین لازب(Adsorbale clay)
”طین” کے بعد ”طین لازب” کا مرحلہ آیا، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:
إِنَّا خَلَقۡنَٰهُم مِّن طِينٖ لَّازِبِۢ ١١ (الصافات : 11 )
” بے شک ہم نے اُنہیں چپکتے گارے سے بنایا۔”
” طین لازب ” طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ لغتِ عرب میں ہے:
” اِذَا زال عنه ( الطین ) قوةُ الماءِ فهو طین لازب۔"
” جب گارے سے پانی کی سیلانیت زائل ہو جائے تو اُسے ” طین لازب ” کہتے ہیں۔”
یہ وہ حالت ہے جب گارا قدرے سخت ہو کر چپکنے لگتا ہے۔
5۔صلصال من حماء مسنون (Old physically and chemically altered mud)
مٹی اور پانی سے مل کر تشکیل پانے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس میں بو پیدا ہو گئی۔ اس بودار مادّے کو اللہ ربّ العزت نے ”صلصال من حماء مسنون” کا نام دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ ٢٦ ( الحجر : 26 )
” اور بیشک ہم نے اِنسان کی ( کیمیائی ) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی ہے۔”
اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق انسانی کے کیمیائی اِرتقاء میں یہ مرحلہ "طین لازب” کے بعد آتا ہے، یہاں "صلصال” ( بجتی مٹی ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کی اصل "صلل” ہے۔ امام راغب اصفہانی "صلصال” کا معنی یوں بیان کرتے ہیں :
” تردَ د الصوت من الشیء الیابس، مسمّی الطین الجاف صلصالاً۔” ( المفردات: 274 )
” خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردّد یعنی کھنکناہٹ۔ اسی لیے خشک مٹی کو "صلصال” کہتے ہیں کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔”
لغت عرب میں "صلصال” کا معنی یوں بیان کیاگیا ہے:
” الصلصال : الطین الیابس الذی یصل من یسبه أی یصوت۔" ( المنجد:446)
” صلصال سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی کی وجہ سے بجتی ہے، یعنی آواز دیتی ہے۔”
” صلصال ” کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے پہلے نہیں، کیونکہ عام خشک مٹی، جسے تُراب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لفظِ صلصال اِس اعتبار سے تراب سے مختلف مرحلے کی نشان دہی کر رہا ہے، لہٰذا صلصال کا مرحلہ ” طین لازب ” یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ جب طین لازب ( چپکنے والا گارا ) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خشک ہوتا گیا تو اُس خشکی سے اس میں بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ یہ تو طبیعی تبدیلی (Physical change) تھی مگر اس کے علاوہ اس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی تبدیلیاں بھی ناگزیر تھیں، جن میں اُس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا۔ اِن دونوں چیزوں کی تصدیق اِسی آیت کے اگلے الفاظ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ سے ہو جاتی ہے۔
” حَمٰی” حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ تپنے، کھولنے اور جلنے وغیرہ کے معنوں میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ ارشاداتِ ربانی ہے کہ:
تَصۡلَىٰ نَارًا حَامِيَةٗ ٤ (الغاشیہ : 4 )
”دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔”
يَوۡمَ يُحۡمَىٰ عَلَيۡهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ(التوبہ : 35)
”جس دن اُس ( سونے، چاندی اور مال ) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی۔”
لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرۡدٗا وَلَا شَرَابًا
٢٤ إِلَّا حَمِيمٗا وَغَسَّاقٗا ٢٥ ( النباء : 24 – 25)
” اور اُس میں ( کسی قسم کی ) ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کا۔ سوائے کھولتے ہوئے گرم پانی اور پیپ کے۔”
الغرض ” حَمٰی ” میں اس سیاہ گارے کا ذکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرارت کے باعث وجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشان دہی کر رہا ہے۔
”مسنون” سے مراد متغیر اور بدبودار ہے۔ یہ ”سن” سے مشتق ہے جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے اور صیقل کرنے کے بھی ہیں، مگر یہاں اِس سے مراد متغیر ہو جانا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی شے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ اِحماء ( جلانے اور سڑانے ) کا لازمی نتیجہ ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
فَٱنظُرۡ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡۖ ( البقرہ : 259 )
” پس ( اَب ) تو اپنے کھانے پینے ( کی چیزوں ) کو دیکھ، ( وہ ) متغیر ( باسی ) بھی نہیں ہوئیں۔”
جب گارے ”طین لازب” پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کر لیے تو اس کا رنگ بھی متغیر ہو کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اَثر سے اُس میں بو بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ ٢٦ میں کیا جا رہا ہے۔
کسی شے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے، اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کثافتوں کے سڑنے کا عمل یا اُس کا اثر باقی رہتا ہے اور جب کثافت ختم ہو جاتی ہے تو بدبو بھی معدوم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا :
صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ ٢٦( الحجر : 26 )
” سِن رسیدہ ( اور دُھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر ) سیاہ بدبودار ہو جانے والا گارا۔”
گویا لفظ ”صلصال” واضح کر رہا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اس کی کثافت بھی کافی حد تک معدُوم ہو چکی تھی۔
6۔ صلصال کالفخار (Dried and highly purified clay)
اِنسان کے کیمیائی ارتقا میں چھٹا مرحلہ صلصال کالفخار ہے، جس کی نسبت ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِن صَلۡصَٰلٖ كَٱلۡفَخَّارِ ( الرحمٰن : 14 )
” اُس نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔”
جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا، اُس کیفیت کو ”کَالْفَخَّار” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تشبیہ میں دو اشارے ہیں:
(الف) ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔
(ب) کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آ جانا۔
لفظ ”فخار” کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنی مباہات اور اظہارِ فضیلت کے ہیں۔ یہ فَاخر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ ”فخار” عام طور پر گھڑے کو بھی کہتے ہیں اور مترجمین ومفسرین نے بالعموم یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ ٹھیکرا اور گھڑا چونکہ اچھی طرح پک چکا ہوتا ہے اور خوب بجتا اور آوازیں دیتا ہے، گویا اپنی آواز اور گونج سے اپنے پکنے، خشک اور پختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اس لیے اُسے فخر کرنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرتی ہے۔ امام راغب اصفہانی اس بارے میں لکھتے ہیں:
” یعبر عن کل نفیس بالفاخر، یقال ثوب فاخرة وناقة فخور۔” (المفردات:374)
” ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں۔ اس لیے نفیس کپڑے کو ‘ثوبِ فاخر’ اور عمدہ اونٹنی کو ‘ناقہ فخور’ کہا جاتا ہے۔”
اور فَخَّار اسی سے مبالغہ کا صیغہ ہے جو کثرتِ نفاست اور نہایت عمدگی پر دلالت کرتا ہے، صاحبُ المحیط بیان کرتے ہیں:
” الفاخِر: اِسم فاعلٍ و الجید من کل شیئ۔” (القاموس المحیط، 2:112)
” الفاخر اسم فاعل ہے اور ہر شے کا عمدہ ( حصہ ) ہے۔”
فَخَّار میں عمدگی اور نفاست میں مزید اِضافہ مراد ہے۔ اس معنی کی رُو سے اِظہار شرف کی بجائے اصل شرف کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں معانی میں ہرگز کوئی تخالف اور تعارُض نہیں، بلکہ ان میں شان دار مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، باری تعالیٰ تخلیقِ انسانی کے سلسلۂ ارتقاء کے ضمن میں اس مرحلے پر یہ واضح فرما رہے ہیں کہ وہ مٹی اور گارا جو بشریت کی اصل تھا۔ اس قدر تپایا اور جلایا گیا کہ وہ خشک ہو کر پکتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ مٹی، پانی اور کثافتوں سے پاک صاف ہو کر نفاست اور عمدگی کی حالت کو بھی پا گیا۔ یہاں تک کہ وہ ”صلصال کالفخار” کے مرحلے تک پہنچی تو ٹھیکرے کی طرح خشک ہو چکی تھی اور کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اختیار کر چکی تھی۔ گویا اب ایسا پاک، صاف، نفیس، عمدہ اور لطیف مادہ تیار ہو چکا ہے کہ اُسے اشرف المخلوقات کی بشریت کا خمیر بنایا جا سکے۔ انسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ جن کی خلقت ہی آگ سے ہوئی، مگر انسان کی خلقت میں ”صلصال” کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لیے آگ کو محض استعمال کیا گیا، اُسے خلقتِ انسانی کا مادّہ نہیں بنایا گیا، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِن صَلۡصَٰلٖ كَٱلۡفَخَّارِ ١٤ وَخَلَقَ ٱلۡجَآنَّ مِن مَّارِجٖ مِّن نَّارٖ ١٥ (الرحمٰن : 14-15)
” اُسی نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔”
اسی طرح ارشاد فرمایا گیا:
وَٱلۡجَآنَّ خَلَقۡنَٰهُ مِن قَبۡلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ ٢٧ ( الحجر : 27)
” اور اُس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلانے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دُھواں نہیں تھا۔”
اس لیے خلقتِ انسانی کے مراحل میں آگ کو ایک حد تک دخل ضرور ہے، مگر وہ جنات کی طرح اِنسان کا مادّہ تخلیق نہیں۔
7۔ سلالہ من طین (Extract purified clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٖ مِّن طِينٖ ١٢ ( المؤمنون : 12)
”اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی ( کے کیمیائی اجزا ) کے خلاصہ سے فرمائی۔”
اِس آیت کریمہ میں گارے کے اس مصفّٰی اور خالص نچوڑ کی طرف اشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے، یہاں اِنسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء ”طین لازب” کے تزکیہ و تصفیہ (Process of Purification) کا بیان ہے۔ سُلٰلَة سَلَّ یَسُلُّ سے مشتق ہے، جس کے معنی میں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا شامل ہے۔
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ سے مراد اَلصَّفُوا الَّذِیْ یُسَلُّ مِنَ الْاَرْضِ ہے۔ یعنی مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو۔ الغرض سُلٰلة کا کامل مفہوم اُس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی چیز کو اچھی طرح صاف کیا جائے، اس کی کثافتوں اور میلے پن کو ختم کیا جائے اور اُس کے جوہر کو مصفّٰی اور مزکّٰی حالت میں نکالا جائے۔ گویا سُلٰلة کا لفظ کسی چیز کی اس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔
تشکیلِ بشریت اور تخلیق آدم علیہ السلام
کرۂ ارض پر تخلیقِ انسانی کے آغاز کے لیے خمیرِ بشریت اپنی کیمیائی اِرتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لیے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اس لائق ہوا کہ اُس سے حضرتِ انسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اسے خلافت و نیابت الٰہیہ کے عالی شان منصب سے سرفراز کیا جائے، اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ضرور ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ ان اِرتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذکر کیا ہے اسے حتمی نہ سمجھا جائے، کوئی بھی صاحبِ علم اِن جزئیات و تفصیلات کے بیان میں اختلاف کر سکتا ہے، البتہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں مختلف الفاظ و اصطلاحات کے استعمال سے کیمیائی ارتقاء کے تصور کی واضح نشان دہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیرِ بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو چکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اس سے باری تعالیٰ نے پہلے انسان کی تخلیق ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکرِ بشریت اس طرح تشکیل دوں گا۔ یہ تفصیلات قرآنِ مجید میں سورة البقرہ (30-34 ) ، سورة الحجر ( 26-35 ) ، سورة الاعراف ( 11-16 ) اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
فرشتوں کا اِس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکر بشریت زمین میں خون ریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اسی طرح ابلیس کا انکار سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت اور صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ کا ذکر کرنا وغیرہ یہ سب اُمور اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ان کی نظر انسان کی بشری تشکیل کے ابتدائی اور دورانی مراحل پر تھی اور ایسا خیال وہ اُن اجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے جن کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں اس پیکر خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی اشیاء کی طرف دھیان کیے ہوئے تھے، اُن کی نظر مٹی کی اس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزکّٰی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ سُلَٰلَةٖ مِّن طِينٖ سے تعبیر فرما رہا ہے۔ مٹی کی یہ جوہری حالت (سُلَٰلَةٖ) کیمیائی تغیرات سے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اس قابل ہو چکی تھی کہ اس میں روحِ الٰہیہ پھونکی جاتی اور نفخ روح کے ذریعے اس کے پیکر کو فیوضاتِ الٰہیہ کے اخذ و قبول اور انوار و تجلیات ربانی کے اِنجذاب کے قابل بنا دیا جاتا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:
فَإِذَا سَوَّيۡتُهُۥ وَنَفَخۡتُ فِيهِ
مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُۥ سَٰجِدِينَ ٢٩ ( الحجر : 29)
” پھر جب میں اس کی ( ظاہری ) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چُکوں اور اس پیکر ( بشری کے باطن ) میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔”
چنانچہ بشریت اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اسے نفخِ روح کے ذریعے وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ( اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے ) کا مصداق بنایا گیا اور تب یہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائکہ ہوا۔
ماشاءاللہ ، بہت کمال لکھا، اللہ تعالی آپ کو اجرعظیم سے نوازے
پسند کریںپسند کریں
انسان کی تخلیق قرآن وحدیث کی روشنی میں ارسال کر یں
پسند کریںپسند کریں