الواقعۃ شمارہ 20 – 21 محرم و صفر 1435ھ
اشاعت خاص : برائے قرآن کریم
از قلم : ابو عمار سلیم
قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الفرقان کی آیت نمبر 30 کے الفاظ ہیں و قال الرسول یٰرب ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجورا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ” رسول (ﷺ) نے کہا ! اے رب بے شک میری قوم نے اس قران کو نظر انداز کر رکھا تھا ۔” اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق کے مضامین پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قران اس وقت کا نقشہ کھینچ رہا ہے جب قیامت قائم ہو چکی ہوگی ۔ تمام نفوس اللہ کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہوں گے ۔ نیکو کاروں کو ان کی ایمان پر گامزن رہنے اور اللہ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کی پیروی کے نتیجہ میں اعلیٰ درجات اور جنت عطا کی جا رہی ہوگی ۔ اسی طرح کافروں اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو ان کے کیے کی سزا مل رہی ہوگی ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔ ابرار خوش ہوں گے تو کفار سخت پشیمانی اور پریشانی میں ہوں گے ۔ لوگ کف افسوس مل رہے ہوں گے کہ اے کاش ہم نے رسول کی بات مان لی ہوتی اور ان گمراہیوں میں نہ پڑے ہوتے ، فلاں کی تقلید نہ کی ہوتی اور رسول کی بات کو سچ مانا ہوتا تو آج یہ خرابی کا دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ اس دن ہر ایک پر یہ واضح ہوجائے گا کہ الملک یومئذ الحق للرحمٰن یعنی اس روز حقیقی حکومت صرف حضرت رحمٰن کی ہوگی۔ اللہ جل شانہ’ کا جلال اور شاہانہ رعب و سطوت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگا اور وہ تمام کافرین و مشرکین جن کو اعتماد تھا کہ وہ اللہ کو کسی نہ کسی طور راضی کرلیں گے آج اپنی اس حماقت پر خود ہی نادم ہوں گے ۔ اپنی گذشتہ زندگی پر بھرپور پچھتاوا ہوگا اور وہ سب افسوس بے سود ہوگا کیونکہ وقت واپس نہیں پلٹے گا اور اپنے ہاتھ سے کمائے ہوئے اعمال اس دن اپنا پورا پورا بدلہ دیں گے ۔ کافروں کا اس دن اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھانا اور گئی زندگی کے سر پھرے اعمال کو چھپا لینا ممکن نہ ہوگا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو عالم الغیب ہیں ، وہ تمام باتیں جو ہو چکیں ان سے بھی واقف ہیں اور وہ ساری باتیں جو آئندہ ہونے والی ہیں ان سے بھی کما حقہ’ واقف ہیں ۔ قرآن مجید کا اکثر مقامات پر یہ اسلوب بھی رہا ہے کہ وہ کام جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے ہیں ان کو بھی وہ اس طرح بیان کرتا ہے جیسے ہو رہے ہوں یا ماضی میں واقع ہو چکے ہوں ۔ قرآن اپنے مخاطب ( یعنی انسان ) کو زمان و مکاں کی قیود سے نکال کر ایک ایسی جگہ پہنچا دیتا ہے جہاں سے ہر چیز صاف اور واضح نظر آنے لگے ۔ اس سورة مبارک کی ان آیات میں بھی کچھ اسی قسم کے ماحول کی عکس بندی ہے اور وہ سب کچھ جو ابھی ہوا ہی نہیں ہے عقل و خرد رکھنے والوں کو اس کی جھلک دکھائی جا رہی ہے کہ اس دن حساب کتاب کس طرح ہوگا اور اس مثال کے ذریعہ رسول کے پیغام کو نہ ماننے والوں کو تنبیہ کی جا سکے اور ان کی ہدایت کے لیے ان کے قلوب پر چوٹ لگائی جا سکے ۔ اس دن جب حق قائم ہوگا تو کسی کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہے گی ۔ گناہ گار جب اپنے گناہ کا اقرار نہیں کریں گے اور اپنے نامہ اعمال کو نہیں مانیں گے تو ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی پھر ان کے ہاتھ ، ان کے پاؤں اور ان کی جلد ، ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ پھر ان کے غلط اعمال پر مہر ثبت ہو جائے گی اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے اوپر ان ہی جیسے لوگ گواہی دینے کے لیے بلائے جائیں گے ۔ پوری کی پوری امت اپنے رسولوں کو جھٹلائے گی تو ان کے اوپر امت وسط گواہ ہوگی۔
اسی تناظر میں یہاں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ قیامت کے روز صاحب قران سید المرسلین خاتم النبین نبی آخر الزماں حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ اپنے رب کے حضور میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے اللہ میری قوم نے بھی اس قرآن اور اس کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اس پر عمل کرنے سے گریز کرتی رہی ۔آیت مبارک کو اگر سرسری نظر سے دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اپنی قوم یعنی گروہ قریش اور دیگر عرب قبائل کی شکایت فرما رہے ہیں کہ انہوں نے بھی قرآن کا مذاق اڑایا ، اس کا ٹھٹھا کیا اور اس کو جادو ، ہزیان اور پتہ نہیں کیا الا بلا کہتے رہے ۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ جب حضور نے اپنے شہر میں اپنی قوم کو اسلام کی طرف دعوت دی تو انہوں نے اس قرآن کا خوب دل بھر کے مذاق اڑایا ۔ ایسے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اللہ کی بارگاہ میں یہ شکایت یقیناً حق بجانب ہے اور ان مشرکوں اور ہذیان بکنے والوں کی گرفت کے لیے بہت ہی کافی گواہی ثابت ہوگی ۔ قرآن کریم فرقان حمید کی مختلف تفاسیر جو بڑے بڑے علماء نے تحریر کی ہیں ان میں تقریباً سب کا رجحان اسی طرف ہے کہ یہ شکایت عملاً آپ ﷺ اپنی قوم کی طرف ہی کر رہے ہیں مگر اس کے ایک رخ میں خود حضور علیہ السلام کا اپنی امت کی طرف اشارہ بھی ہے ۔ علامہ عماد الدین ابن کثیر اس ضمن میں یہ لکھتے ہیں :
” قیامت کے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت ﷺ اپنی امت کی شکایت جناب باری میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قران کی طرف جھکتے تھے نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے ۔ جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے لا تسمعوا لھذا القراٰن و الغوا ( فصلت : 26 ) اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل کرو ۔ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا ۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے ، نہ اس پر عمل تھا ، نہ اس کے احکامات کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے ۔ بلکہ اس کے سوا اور کلاموں میں مشغول و منہمک رہتے تھے یعنی شعر ، اشعار ، غزلیات ، باجے گاجے ، راگ راگنیاں وغیرہ ۔ ” ( تفسیر ابن کثیر اردو ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی )
مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنی مشہور تفسیر میں لکھا کہ ” آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قران کی تصدیق نہ کرنا ، اس میں تدبر نہ کرنا ، اس پر عمل نہ کرنا ، اس کی تلاوت نہ کرنا ، اس کی صحیح قراءت کی طرف توجہ نہ دینا ، اس کے احکام سے اعراض کر کے دوسری لغویات اور حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ، یہ سب صورتیں درجہ بہ درجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں ۔” ( ماخوذ از ”درس قران” از جناب محمد احمد صاحب )
اسی طرح مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” آیت سے ظاہر یہ ہے کہ قران کو مہجور اور متروک کر دینے سے مراد قرآن کا انکار ہے جو کفار کا ہی کام ہے ۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کر کے گھر میں معلق کر دیا کہ نہ اس کی تلاوت کی نہ اس کے احکامات میں غور کیا ، قیامت کے دن قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا ۔ اب اس کے اور میرے معاملہ کا فیصلہ فرمائیں ۔” ( معارف القرآن ، تفسیر سورة الفرقان )
تدبر القرآن میں مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے بارے میں رقم کرتے ہیں : ” ………. ایک طرف تو قرآن کو جھٹلانے والے خود اپنی بد بختی پر سر پیٹیں گے تو دوسری طرف نبی ﷺ بھی اپنے رب سے شکوہ کریں گے کہ اے رب میں نے تیری کتاب پوری دلسوزی کے ساتھ اپنی اس قوم کے سامنے پیش کی لیکن ان لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی بلکہ نہایت نا قدری سے ٹھکرا دیا ۔ حضور ﷺ کا یہ شکوہ ان اشقیاء کے تابوت میں آخری کیل ہوگا جس کے بعد ان کے لیے زبان کھولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی ۔”
اوپر کی گفتگو کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں جو شکایت اپنی قوم کے بارے میں ہے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنے قبیلہ قریش اور عرب کے لوگوں سے متعلق بھی ہے اور اس جگہ قوم سے مراد حضور پاک ﷺ کی امت سے بھی ہے ۔ اسلام کی اشاعت کے دور میں آپ ﷺ کو آپ کی قوم نے جو تکلیفیں پہنچائیں اور جس طرح آپ کا ، قرآن کا اور آپ کی دعوت کا مذاق اڑایا گیا وہ تو معلوم ہی ہے ۔ جن لوگوں نے نہیں مانا ان کا حشر تو یقیناً قرآن شریف کی مختلف بیان کردہ آیات کی روشنی میں ہی ہوگا اور حق تو یہ ہے کہ مجھے ان لوگوں کے لیے جو اپنی سرکشی اور کفران میں غرق رہنے کے بعد ختم ہوگئے ذرا بھی ہمدردی ہے اور نہ ان کے لیے سوچنے کی مہلت ۔ ہاں البتہ جن لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ کے احکامات کے آگے اپنا سر جھکا دیا اور قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر حضور اکرم ہادی برحق کی معیت اور نگرانی میں اپنی زندگی کو استوار کر لیا ، وہی تو وہ لوگ ہیں جو روشن ستارے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضور پاک ﷺ کے وہ تربیت یافتہ صحابہ کرام اور پھر ان صحابہ سے تربیت یافتہ گروہ نے اسی قرآن کی بدولت اپنی زندگیوں کو کس طرح روشن کیا کہ رہتی دنیا تک آنے والوں کے لیے روشنی کا مینار اور زندگی گزارنے کا معیار بن گئے ۔ ان ہی کی زندگی ہے جو ہمارے لیے نمونہ ہے ۔ ان کے معیار کو اپنانا ہی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے ۔ یعنی یہ کہ اگر آپ ﷺ کو اپنی امت سے شکایت ہوگی تو یقیناً یہ پاک صاف اور روشن لوگ ان میں نہیں ہوں گے کیونکہ وہ تو جانثار تھے اپنے رسول کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہا دینے والے تھے ۔ وہ تو رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ ہیں ۔ ان سے کیا شکایت ۔ انہوں نے نہ تو قرآن کو چھوڑا اور نہ ہی اسے متروک سمجھا ۔ یقیناً وہ لوگ جن کی شکایت آں جناب ﷺ اپنے رب کے آگے کریں گے وہ بعد کے لوگ ہی ہوں گے جو اقرار تو حضور ﷺ کی رسالت کا کریں گے مگر کام ایسے کریں گے جو ان ( ﷺ ) کی دل آزاری کا ہوگا ۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ قول بھی تو ہے ” میرا زمانہ سب سے بہتر زمانہ ہے اس کے بعد اس کے بعد آنے والے لوگوں کا اور اس کے بعد ان کے بعد آنے والے لوگوں کا ۔” یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا آج کا موجودہ دور یقیناً دنیا بھر کی خرابیوں اور اسلام کے بتائے ہوئے راستوں سے انتہائی دوری کا دور ہے ۔ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اپنی اخلاقی گراوٹ اور اخلاقی پستی کا اندازہ کریں تو اس میں کوئی شک بھی باقی نہیں رہتا کہ معاملہ واقعی ایسا ہی ہے۔
اپنے ارد گردنظر دوڑائیں اور اپنے گھر سے اور اپنے خاندان کے افراد سے شروع کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ لوگ کس حد تک قرآن سے نزدیک ہیں ۔ کون سے لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت با قاعدگی سے کرتے ہیں ؟ کتنے لوگ ہیں جو اس کی تلاوت کے ساتھ اس کے مطالب کو سمجھنے کے لیے ترجمہ و تفسیر کا سہارا لیتے ہیں ؟ ان میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ان آیات کا مطلب سمجھ کر ان پر غور کرتے ہیں ، ان پر تدبر کرتے ہیں اور پھر کتنے لوگ ہیں جو ان احکامات قرآنی کو اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہیں اور ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ سروے یقیناً ایک انتہائی مایوس کن نتیجہ پیش کرے گا ۔ ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگوں نے قرآن پڑھا ہی نہیں ہے ۔ نہ ان کو قرآن پڑھنا آتا ہے نہ انہوں نے کبھی اس کی طرف توجہ کی ہے ۔ کچھ لوگ آپ کو ایسے بھی مل جائیں گے جنہیں اپنی اس خامی کا احساس تو ہو گیا ہے مگر وہ اس خامی کو دور کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں ۔ یہ ہچکچاہٹ ہے کہ اب اس بڑی عمر میں مولوی کے آگے زانو تہہ کر کے بچوں کی طرح قرآن پڑھنا کیا سیکھیں ۔ پھر آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ کچھ لوگ تو واقعی مسجد میں مولوی صاحب کے آگے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے ۔ ہجے کر کے بچوں کی طرح قرآن پڑھنا سیکھنے لگے ۔ کچھ حضرات آپ کو ملیں گے جو کسی کے آگے بیٹھ کر سیکھنا نہیں چاہتے اور انہیں اپنی ذات پر یقین ہے تو وہ اٹک اٹک کر خود سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بچپن میں جو کبھی پڑھا تھا وہ اتنے عرصہ میں بھول بھال گیا تھا اب اسے دوبارہ زندہ کر رہے ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ آفرین ہے ان تمام لوگوں پر جو عمر ڈھل جانے کے بعد اپنی اس خامی کو دور کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ ہی عرصہ گذرے گا کہ یہ لوگ نہ صرف روانی سے تلاوت کلام پاک کرنے لگ جائیں گے بلکہ ان شاء اللہ اپنی کوششوں اور احساس کے اس بوجھ تلے ان الفاظ کے مطلب سمجھنے کی طرف بھی مائل ہو جائیں گے ۔ میرا ایمان ہے کہ جو پورے خلوص کے ساتھ کوشش شروع کر دے علم کو حاصل کرنے کے لیے اس کا شمار اللہ تعالیٰ غافلوں میں اور مداہنت کرنے والوں میں نہیں کریں گے ۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے توفیق دے دی اور وہ سیدھے راستے پر لگ گئے اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ جلد ہی وہ لوگ اس قرآن کے احکامات کو اپنی زندگی پر لاگو کرنے میں بھی غفلت نہیں کریں گے۔
اوپر ذکر کیے گئے لوگ آج ہمارے معاشرے میں بہت کم ہیں ۔ اکثریت ان لوگوں کی ہی ہے جو مسلمان ہونے کے ناطے قرآن کو مانتے بھی ہیں ، اس کا احترام بھی کرتے ہیں مگر نہ قرآن پڑھتے ہیں ، نہ اس کا مطلب سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا تو بہت بعید از قیاس بات ہے ۔ آپ اس بات پر میرے ہم خیال ہوں گے کہ آج کا دور شیطانی اور دجالی دور ہے ۔ شیطان نے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا رکھا ہے اور اس کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے ۔ اس شیطانی کارروائی نے آج کے معاشرے کو مادر پدر آزاد معاشرہ بنا دیا ہے ۔ جتنا گناہ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ سے بانٹا اور پھیلایا جا رہا ہے وہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے مذہب اور اپنی اسلامی اقدار سے دور بہت دور لے جا رہا ہے۔
قرآنِ کریم سے اعراض کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ لوگ اسے استفادے اور ہدایت کی غرض سے پڑھنے کی بجائے محض اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے پڑھیں ۔ اس میں معنوی تحریفات کا ارتکاب کریں ۔ خود بدلنے کی بجائے قرآن کو بدلنے کا عملِ مذموم انجام دیں ۔ کچھ ہی دنوں پہلے مجھے اطلاع ملی کہ ایک صاحب یہ پرچار کرتے پائے گئے کہ قرآن تو پندرہ سو سال پہلے کے جاہلوں کے لیے اتارا گیا تھا ۔ ہم تو کھلے ذہن کے پڑھے لکھے مہذب اور ترقی یافتہ لوگ ہیں اچھائی اور برائی سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اس لیے اب اس قرآن کو نہ پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ اس سے کوئی ہدایت مل سکتی ہے ۔ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق وہ کرو جو معاشرہ اور انسانیت کی بھلائی کے لیے مفید ہو ۔ استغفر اللّٰہ من ذٰلک ۔ آپ خود سوچیں کہ کیا ایسے لوگ مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا یہ لوگ حضور نبی اکرم صاحب السلام و التسلیم کے لیے دکھ اور ایذا پنہچانے والے نہیں ہیں ؟ کیا ان کے خلاف آقائے نامدار ﷺ کی اللہ کے حضور میں شکایت بجا نہیں ہوگی ؟ اللہ ہمیں ایسے بھٹکے ہوئے گروہ سے اور ان کی تعلیمات سے محفوظ رکھیں ۔ آمین
آج کا مسلمان یہ تو مانتا ہے کہ قران میں جو ہدایات ہیں وہ اس کی اور اس کے معاشرے کی بھلائی اور ترقی کی ضامن ہیں اور ان پر عمل میں فلاح اور کامیابی ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا ، دھوکہ دہی کرنا ، غیبت کرنا ، ناپ تول میں کمی کرنا ، زکٰوة ادا نہ کرنا اور اس جیسی دیگر چیزوں پر عمل کو قرآن نے سختی سے منع کیا ہے مگر کتنے ہی لوگ ہیں جو یہ جاننے کے بعدبھی ان پر عمل پیرا ہیں ؟ کیا ہمارے معاشرے میں یہ تمام برائیاں تمام و کمال کی حد پر نہیں پہنچی ہوئی ہیں ۔ ان باتوں اور احکامات کا علم ہونے کے باوجود ان برائیوں پر عمل کرتے رہنا بلکہ ان پر مُصر رہنا قرآن کے احکامات سے روگردانی اور اس کی تحقیر نہیں ہے ؟ قرآن کو چھوڑ دینا اگر یہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ ان اعمال کے کرتے رہنے کے ساتھ قرآن کی عزت ہمارے دلوں میں موجود بھی رہے تو ایسی عزت کس کام کی اور یہ عزت ہمیں اس انجام سے کیسے بچائے گی جو حضور نبی اکرم ﷺ کی فریاد اور شکایت کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر کی جائے گی ۔ اے کاش کہ مسلمان ہوش میں آ جائے ۔ دنیاوی فائدوں اور یہاں کی بھلائی ، آسائش اور آرام کی بجائے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب اور ذلت و رسوائی سے نجات حاصل کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے۔
اللہ رب العالمین یقیناً بہت رحیم ہیں ، بڑے ہی کرم کرنے والے ہیں ، سمندروں کی جھاگ سے بھی زیادہ گناہ ہوں تو انہیں معاف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ہم اپنے گناہوں کی زیادتی سے آسمانوں اور زمین کی وسعتوں کو ڈھانپ دیں پھر بھی اگر وہ چاہیں گے تو پلک جھپکتے ہی ان کو معاف کر سکتے ہیں اور ان کی بادشاہت اور ان کی بڑائی میں نہ کوئی کمی ہوگی نہ رخنہ پڑے گا ۔ آج کا مسلمان اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا ہے ا ب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اللہ تو ہمیں ضرور معاف کر دے گا ۔ میری دعا اپنے لیے بھی اور آپ سب کے لیے بھی یہی ہے کہ ایسا ہی ہو اور اللہ ہم سب کو بلا حساب کتاب معاف کر دیں ۔ آمین ۔ مگر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم چاہے جتنی بھی سرکشی کرلیں ، ایک مرتبہ کلمہ پڑھ لیا ، عید کے دن یا جمعہ کی نماز پڑھ لی تو بس اب معافی ہی معافی ہے ؟ جناب ہم تو ایسا اپنی سرکش اولاد کے لیے بھی نہیں کر سکتے جس کو ہم نے وہ سب کچھ نہیں دیا ہے جو اللہ ہمیں دے رہا ہے ۔ سرکشی اور نا فرمانی ، احکامات سے رو گردانی اور ان کا بجا نہ لانا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اس کا بھول چوک سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم اللہ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل پیرا رہیں اور پھر اگر اس میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو ہم معافی کے خواستگار ہو سکتے ہیں اور مغفرت کی امید رکھ سکتے ہیں مگر صریح گمراہی میں پڑے رہنے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے بغیر اس کی رحمت کی امید رکھنا کہاں کی دانائی ہے ۔ خواب غفلت سے جاگنے کا وقت ہے اور اپنے اعمال کو سیدھا کرنا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ، وگرنہ پشیمانی اور ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت اور خواری مقدر ہو جائے گی۔
آئیے اس بات کا اعادہ کریں کہ ہم ایسی تمام حرکتوں سے تائب ہو جائیں جو رسول اکرم نبی محترم ﷺ کی شکایت کی وجہ بن جائے ۔ قرآن مجید فرقان حمید جو انسان کے لیے راہ ہدایت ہے ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہونا چاہئے ۔ اس کے احکامات پر دل و جان سے عمل کرنا ہمارے لیے اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ اس کا علم حاصل کرنا ، اس کی درست تلاوت کرنا ، اس کا مطلب سمجھنا ، اس کو یاد کرنا ، اس کو روزانہ پڑھنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پر انتہائی دیانت سے عمل کرنا اور اس کو اپنی زندگیوں پر لاگو کر لینا ہی ہمارے لیے راہ نجات ہے اور ہمیں اس ذلت سے بچانے کا باعث ہو سکتا ہے جو قیامت کے دن حضور اقدس ﷺ کی شکایت اور فریاد کے بعد ان ظالموں پر عذاب کی صورت میں ٹوٹ پڑے گا ۔ اے کاش کہ ہم مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ قرآن میں جو بیان ہوا ہے وہ حق ہے اور اللہ نے ہمیں پہلے سے ہی یہ بات بتا کر متنبہ کر دیا ہے کہ قیامت کے دن رسول فریاد کریں گے اور اپنی امت کی شکایت کریں گے ۔ کوئی سر پھرا قرآن کے اس بیان کے بعد بھی اس کو داستان اور قصہ یا جھوٹ موٹ کا ڈراوا سمجھے تو یقیناً وہ بڑا ہی عاقبت نا اندیش شخص ہوگا ۔ ایمان والوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی امت کی قرآن کو بھول جانے کی حرکت پر شدید غم میں ہونگے کہ انتہائی رحم دل اور امت کے بے اندازہ خیر خواہ ہونے کے باوجود آپ اللہ کے آگے فریاد کریں گے اور پھر یہ کہ وہ تو اللہ کے محبوب ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ اس فریاد اور شکایت کے بعد اپنے محبوب کی دلجوئی نہیں کرے گا ؟ یقیناً کرے گا اور اس کا اندازہ کوئی انتہائی کم عقل شخص بھی لگا سکتا ہے کہ یہ اللہ کے غیض و غضب پر منتج ہوگا پھر وہ لوگ جو اس جرم کے مرتکب ہوں گے ان پر اللہ کا عذاب کیسے ٹوٹ پڑے گا اور ان کا کیا حال ہوگا ؟ کون اس دن ان کے کام آئے گا اور کون ایسا ہوگا جو اللہ کے جوش انتقام کو کم کر وا سکے گا ۔ اللہ سے التجا ہے کہ ہمیں ایسے برے انجام سے بچا لیں۔
آئیے ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان تمام باتوں سے دور رہنے کی کوشش کریں جو ہجران قرآن کا باعث ہیں ۔ اس دنیا میں ہم اپنی انتہائی کوشش کرلیں کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس کی بدولت نبی رحمت سرکار دو عالم ﷺ اپنے رب کے حضور ہماری شکایت کریں اور پھر ہمارا ٹھکانا دوزخ میں ہو جائے ۔ اے اللہ امت محمدی کو اپنے رسول کی محبت عطا فرما ان کے احکامات اور ان کی لائی ہوئی شریعت مطہرہ پر کامل ایمان اور ایقان کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما ۔ ہجران قرآن جیسے گناہ سے محفوظ رکھ اور کم از کم ہمیں ان لوگوں میں ہونے سے بچالے جو تیرے غضب کا شکار ہوں گے ۔ آمین یا رب العالمین۔