سیرت فاروق کے چند اوراق


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا غلام رسول مہر

تھوڑے دنوں میں اسلام کی فوجوں نے ایران ، شام اور مصر کے ملک فتح کر لیے۔ اسلامی سلطنت کی حدیں دور دور تک پہنچ گئیں۔ صحابہ کو خیال آیا کہ خلیفۃُ المسلمین کے گزارہ کی جو رقم ہم نے مقرر کی ہے وہ بہت تھوڑی ہے۔ اسے زیادہ کر دینا چاہیے۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ حضرت عمر کے ساتھ کھل کر یہ بات کر سکے۔ کافی سوچ بچار کے بعد آپ کی صاحبزادی ام المومنین حفصہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ مہربانی کر کے یہ بات اپنے ابا جان سے منوا دیجیے۔خلیفہ اوؔل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا۔ حضرت عمر بھی خلیفہ اول کی طرح تجارت کیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ بنے کاروبار ترک کرنا پڑا۔ چنانچہ کبار صحابہ نے مشورہ کر کے آپ کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ جس سے آپ کے اہل و عیال کا بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ حضرت عمر نے خوشی سے وہ وظیفہ قبول کر لیا۔

حضرت حفصہ نے ایک موقع مناسب سمجھ کر آپ سے بات کی تو آپ کا چہرہ غصے سے سُرخ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا :

” حفصہ ! تو ہی بتا کہ خدا کے پیارے پیغمبر نے تمہارے گھر میں کونسا اچھے سے اچھا لباس زیب تن فرمایا ؟”

حضرت حفصہ نے جواب دیا :

” آنحضرت ﷺ کے پاس دو گیروئے رنگ کے کپڑے تھے۔ جو آپ جمعۃ المبارک کے دن پہن لیتے یا جب باہر سے لوگ ملنے کے لیے آتے تو آپ زیب تن فرما لیا کرتے تھے۔”

حضرت عمر نے پھر فرمایا :

” بھلا یہ تو بتا کہ خدا کے پیغمبر نے اچھے سے اچھا کھانا کون سا کھایا ؟”

حضرت حفصہ نے فرمایا :

” عام طور پر جو کی روٹی کھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ روٹی پک رہی تھی۔ آپ تشریف لائے۔ ہم نے گرم گرم روٹی کو گھی سے چپڑ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی خوشی سے کھایا اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھلایا۔”

حضرت عمر نے تیسری مرتبہ دریافت فرمایا :

” حفصہ ! تمہارے گھر رسول اللہ ﷺ کا بستر کیسا تھا ؟”

فرمایا :

” ہمارے پاس ایک موٹا سا کپڑا تھا۔ موسم گرما میں اس کی چار تہیں کر کے زمین پر بچھا لیتے تھے اور موسم سرما میں آدھا نیچے اور آدھا اوپر لے لیتے تھے۔”

حضرت عمر نے یہ سب کچھ دریافت کرے کے بعد فرمایا :

” حفصہ ! میری یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دے جو میرا وظیفہ بڑھانا چاہتے ہیں کہ خدا کے پیغمبر نے دنیا میں رہنے کی ایک حد ہمیں بتا دی ہے۔ میں جب تک زندہ رہوں گا۔ اپنے پیارے کے قدم بقدم چلوں گا تم یہ سمجھ لو کہ تین ساتھی راستے میں چل رہے تھے پہلے کے پاس زادِ راہ بھی تھا وہ منزل پر بھی پہنچ گیا ( پیغمبر خدا ) ۔ دوسرا پہلے کے پیچھے چلا گیا ( ابوبکر صدیق ) وہ بھی اپنے ساتھی کو جا ملا۔ تیسرا ابھی راستہ میں ہی ہے ( حضرت عمر )۔ اگر اس کی دلی مراد یہی ہے کہ اپنے پہلے دو ساتھیوں سے جا ملے تو اسے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہیے جو پہلوں نے کیا۔ اگر وہ طریقہ چھوڑ دے تو پھر پہلوں سے ملنے کی کیا صورت ہے ؟”

ذرا یہ بھی سوچ لو کہ حضرت عمر نے خود وظیفہ بڑھانے کی بات نہیں چھیڑی۔ صھابہ کا اپنا خیال تھا کہ خلیفۃ المسلمین کا گزارا تنگ ہے ، رقم بڑھا دینی چاہیے۔ لیکن حضرت عمر یہ بات نہ مانے۔ ان کی حالت کیا تھی ؟

ایک دفعہ آپ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ جو چادر اوڑھے ہوئے تھے اسے بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ جمعہ کی نماز پڑھانی تھی آپ کو تھوڑی سی دیر ہو گئی تو سب سے معافی مانگی۔ فرمایا :

” میں نے کپڑے دھو کر سکھانے کو ڈالے۔ جلد نہ سوکھ سکے۔ اور کپڑے ہی نہیں تھے جو پہن کر آ جاتا۔”

ایک دن کھانا کھانے لگے۔ ایک آدمی ملاقات کے لیے آ گیا۔ آپ نے اسے بھی ساتھ بٹھا لیا۔ موٹے آٹے کی خشک روٹی تھی اور آتا چھانا بھی نہیں تھا۔ سالن کی بجائے زیتون کا تیل تھا۔ وہ آدمی ساتھ تو بیٹھ گیا لیکن لقمہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ آخر بولا :

” آٹا چھان نہ لیا ؟”

حضرت عمر نے فرمایا :

” سب مسلمان چھانے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں ۔”

اس نے کہا :

” نہیں۔”

آپ نے فرمایا :

” کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں سارے مزے دنیا میں ہی لے لوں اور اخرت کے لیے کچھ باقی نہ چھوڑوں ؟”

جس خلیفہ کے سر پر بارہ پیوندوں والی چادر تھی جس کا گزارہ موٹے آٹے کی سوکھی ہوئی روٹی پر تھا۔ اس کی فوجیں ایران ، روم اور مصر کی سلطنتوں کی عزت کو خاک میں ملا چکی تھیں اور جن بادشاہوں نے صدیوں میں جو دولت جمع کی ہوئی تھی وہ آج مدینۃ الرسول کی گلیوں میں رُل رہی تھی۔

ایران کے بادشاہ نے ایک دفعہ حضرت عمر کی خدمت میں اپنا ایک سفیر بھیجا۔ وہ سفیر بڑے بڑے دربار دیکھ چکا تھا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر اعلیٰ لباس زیب تن کیا۔ سر پر تاج رکھا جو جگمج جگمج کر رہا تھا۔ اس نے شاید یہ سوچا تھا کہ جس بادشاہ کی فوجیں ایران جیسی مضبوط حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہیں اس کا دربار خدا جانے کتنی بڑی شان کا ہوگا۔ مدینے پہنچ گیا ۔ اسے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ لوگوں سے پوچھا۔ بھائیوں ! خلیفۃ المسلمین کہاں ملیں گے ؟ لوگوں نے کہا : ” وہ مسجد میں ہوں گے۔”

سفیر مسجد میں پہنچا تو حضرت عمر کچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھتے ہی سفیر کانپنے لگا۔ گفتگو کرنے کا یارا نہ رہا۔ یہ رُعب ، یہ ہیبت کپڑوں کی نہیں تھی۔ یہ وہ ہیبت تھی جو خدا کی طرف سے اس کے نیک اور پاک باز بندوں کو عطا ہوتی ہے۔

آپ وقت بے وقت پھرتے رہتے تھے۔ مدینہ منورہ سے دو دو چار چار میل باہر نکل جایا کرتے تھے۔ ایک دن دیکھا کہ ایک عورت چولہے کے پاس بیٹھ کر کچھ پکا رہی ہے اور اس کے پاس بچے بیٹھے رو رہے ہیں۔ آپ نے دریافت کیا۔ اماں یہ بچے کیوں روتے ہیں ؟

اماں نے جواب دیا :

” میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ بچے بھوکے تھے۔ میں نے ہانڈی چولہے پر رکھ دی ہے۔ تاکہ یہ سمجھ لیں کہ سالن پک رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں یہ سو جائیں گے۔ میں بھی ہانڈی اتار کر اللہ اللہ کرنے لگ جاؤں گی۔”

حضرت عمر یہ سنتے ہی واپس لوٹے۔ مدینہ منورہ آ کر بیت المال سے کھانے پینے کی چیزیں نکالیں۔ گٹھڑی باندھ کر سر پر رکھنے لگے تو خادم نے کہا جناب گٹھڑی مجھے چکا دیجیے۔”

آپ نے فرمایا : ” قیامت کے دن بھی تو میرا بوجھ اٹھائے گا ؟ "

گٹھڑی لے کر اس اماں کے پاس پہنچے اور فرمانے لگے : ” اماں جان ! لیجیے آپ روٹی پکائیے۔”

 آپ چولہے میں آگ جلا رہے تھے۔ روٹی تیار ہو گئی ۔ بچوں نے پیٹ بھر کر کھائی اور اچھلنے کودنے لگے۔ اماں نے کہا : بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ خلیفہ تجھے بننا چاہیے تھا۔ عمر اس قابل نہیں۔”

اس بیچاری کو کیا خبر تھی کہ اس کے لیے یہ ساری چیزیں خود حضرت عمر ہی لائے ہیں۔

ایک مرتبہ رات کو گشت کر رہے تھے ۔ ایک بدوی کے خیمے کے آ گے جا پہنچے۔ بدوی باہر بیٹھا تھا۔ اندر اس کی بیوی کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ آپ نے دریافت کیا۔ کیا بات ہے ؟ بدوی نے کہا ۔ میری بیوی کے بچہ ہونے والا ہے، پاس کوئی عورت نہیں۔”

حضرت عمر وہیں سے واپس مڑے ۔ گھر سے آ کر اپنی بیوی کو ساتھ لیا۔ آپ بدوی کے پاس باہر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اپنی بیوی کو بدوی کی بیوی کے پاس خیمے کے اندر بھیج دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمر کی بیوی نے اندر سے آواز دی کہ امیر المومنین ! مبارک ہو تمہارے دوست کو خدا نے لڑکا عطا فرمایا ہے۔

بدوی نے امیر المومنین کا نام سنا تو گھبرا گیا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ "بھائی گھبرانے کا کیا مطلب ؟ سویرے میرے پاس آؤ ، میں بچے کا وظیفہ لگا دوں گا۔”

کئی مرتبہ ملک کا دورہ کیا۔ کبھی کوئی خیمہ ساتھ نہ لیا۔ دھوپ ہوتی تو کسی درخت کے سایہ میں جا بیٹھتے یا اپنے کمبل کا تان کر سایہ کر لیتے ۔ زمین پر ہی بیٹھتے زمین پر ہی سوتے۔

ان کی خلافت کا پانچواں سال تھا۔ لک میں قحط پڑ گیا۔ حضرت عمر نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا۔ گھی کھانا بھی چھوڑ دیا۔ ایک دن پیٹ میں گڑبڑ ہوئی۔ آپ نے اپنے پیٹ میں انگلی چبھو کر فرمایا کہ جب تک قحط ہے تجھے وہی کچھ کھانے کو ملے گا جو آج کل ملتا ہے۔

دیکھی امیر المومنین کی شان ! چھنا ہوا آتا اس لیے ترک کیا کہ سارے مسلمان چھنا ہوا آٹا نہیں کھا سکتے تھے۔ قحط پڑنے پر وہ چیزیں بھی کھانی ترک کر دیں جو مسلمانوں کو نصیب نہیں ہوتی تھیں۔

مدینہ کے جو غازی میدانِ جنگ میں چلے جاتے تھے۔ آپ ان کے گھروں میں جاتے۔ جن کو سودا لا کر دینے والا کوئی نہیں تھا۔ انہیں سودا لا دیتے۔ کوئی خط آتا۔ آپ لے کر غازی کے گھر جا کر اس کے بچوں کو سنا کر آتے۔ باہر کی دہلیز پر بیٹھ جاتے۔ گھر والے جو جواب لکھاتے وہ اپنے ہاتھ سے لکھتے۔

فیروز نامی ایک مجوسی غلام آپ پر کسی وجہ سے ناراض ہو گیا۔ ایک دن آپ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ غلام نے چھرا نکال کر چھ زخم لگائے۔ آپ گر پڑے۔ لوگوں نے اٹھا کر گھر پہنچایا۔ جب آپ کو یقین ہو گیا کہ اب آخری وقت آ گیا ہے اور بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو آپ نے بڑے بڑے صحابہ سے مشورہ کر کے چھ آدمیوں کے نام تجویز کر دیئے ان میں سے جسے چاہو خلیفہ منتخب کرلو۔

اس کام سے فارغ ہو کر اپنے صاحبزادے عبد اللہ کو بلا کر فرمایا :

” یہ رقم میرے مال سے پوری کر کے بیت المال میں جمع کر دو ۔ میرا مال تھوڑا ہو تو میرے خاندان والوں کو کہنا کہ وہ رقم پوری کر دیں۔”

امیر معاویہ نے حضرت عمر کا مکان پوری رقم دے کر خرید لیا۔ یہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی گئی۔

مسلمانوں کا دوسرا خلیفہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے ذمہ مسلمانوں کی ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔ ساری امت پر خلیفہ کے احسانات کا اتنا بوجھ تھا کہ کسی کی گردن اوپر نہیں اٹھ سکتی تھی۔

پھر اپنے صاحبزادے کو فرمایا :

” حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کر ، عمر کی تمنا یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کے پاس دفن ہو۔”

حضرت عائشہ نے بخوشی اجازت دے دی۔ آپ بڑے خوش ہوئے اور ساتھ ہی فرمایا کہ

” میری روح پرواز کر جائے تو ایک دفعہ پھر جا کر اجازت طلب کرنا۔ شاید حضرت عائشہ کا ارادہ بدل جائے۔ ان کی اجازت کے بغیر مجھے وہاں دفن نہ کرنا۔

وفات سے تھوڑی دیر پہلے فرمایا :

” میرے کفن پر زیادہ رقم نہ خرچ کرنا۔ اگر خدا کے دربار میں میری حالت اچھی ہو گی تو مجھے اچھے سے اچھا لباس مل جائے گا۔ اگر وہاں حالت اچھی نہ ہوئی تو تمہارا قیمتی کفن مجھے کیا فائدہ دے گا۔ میرے جنازے کے ساتھ کوئی عورت نہ جائے۔ جنازہ تیار ہو جانے پر جلد از جلد مجھے دفن کر دینا۔ اگر میں خدا کی رحمت کا حق دار ہوں تو ضروری ہے کہ جلدی اس رحمت سے فائدہ اٹھاؤں۔ اگر خدا کی رحمت کا حق دار نہیں تو برے آدمی کا بوجھ جتنی جلدی اپنے کندھوں سے اتار پھینکو بہتر ہوگا۔”

خدا کے پیغمبر اور حضرت ابوبکر صدیق کی طرح حضرت عمر نے بھی تریسٹھ سال کی عمر پائی اور رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک میں تیسری قبر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی بنائی گئی۔

یہ اسلامی حکومت کا دوسرا نقشہ تھا۔ جس زمانے میں اسلام کی برکتیں دور دور پہنچیں۔ اسی زمانے میں وہ ساری بشارتیں پوری ہو گئیں جو رسول پاک ﷺ نے امت کو دی تھیں۔ ان پاک نمونوں کی پیروی کی جائے تو دنیا پھر اسی طرح بہشت بن جائے جیسے ایک دفعہ بن چکی ہے۔

٭   ٭   ٭   ٭   ٭

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.