الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ
اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
از قلم : ابو محمد معتصم باللہ
مکتوب گرامی حسب ذیل ہے :احکام قضاء سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بیش قیمت مکتوب گرامی ملتا ہے جو انہوں نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا جب وہ بصرہ کے گورنر تھے۔ گو اس مکتوب کی اسناد ضعیف ہیں مگر اس روایت کے شواہد اور متابعات ملتے ہیں۔ احکام قضاء سے متعلق اس کے متن سے قضاۃ استفادہ کرتے ہیں مشہور مؤرخ و قاضی امام ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمہ میں اسے درج کیا ہے۔ امام دارقطنی نے اپنی سنن میں اور امام بیہقی نے ” معرفۃ السنن و الآثار ” میں اسے روایت کیا ہے۔
” أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِيضَةٌ مُحْكَمَةٌ وَ سُنَّةٌ مُتَّبَعَةٌ ، فَافْهَمْ إِذَا أُدْلِيَّ إِلَيْكَ بِحُجَّةٍ ، وَ أَنْفِذِ الْحَقَّ إِذَا وَضَحَ ، فَإِنَّهُ لَا يَنْفَعُ تَكَلُّمٌ بِحَقٍّ لَا نَفَاذَ لَهُ ، وَ آسِ بَيْنَ النَّاسِ فِي وَجْهِكَ وَ مَجْلِسِكَ وَعَدْلِكَ حَتَّى لَا يَيْأَسَ الضَّعِيفُ مِنْ عَدْلِكَ وَ لَا يَطْمَعُ الشَّرِيفُ فِي حَيْفِكَ ، الْبَيِّنَةُ عَلَى مَنِ ادَّعَى وَ الْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ ، وَ الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا ، لَا يَمْنَعُكُ قَضَاءٌ قَضَيْتَهُ بِالْأَمْسِ رَاجَعْتَ فِيهِ نَفْسَكَ وَ هُدِيتَ فِيهِ لِرُشْدِكَ أَنْ تُرَاجِعَ الْحَقَّ فَإِنَّ الْحَقَّ قَدِيمٌ وَ مُرَاجَعَةَ الْحَقِّ خَيْرٌ مِنَ التَّمَادِي فِي الْبَاطِلِ ، الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا يُخْتَلَجُ فِي صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِي الْكِتَابِ أَوِ السُّنَّةِ ، اعْرِفِ الْأَمْثَالَ وَ الْأَشْبَاهَ ثُمَّ قِسِ الْأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ فَاعْمَدْ إِلَى أَحَبِّهَا عِنْدَ اللَّهِ وَ أَشْبَهِهَا بِالْحَقِّ فِيمَا تَرَى وَ اجْعَلْ لِمَنِ ادَّعَى بَيِّنَةً أَمَدًا يَنْتَهِي إِلَيْهِ ، فَإِنْ أَحْضَرَ بَيِّنَةً أَخَذَ بِحَقِّهِ وَ إِلَّا وَجَّهْتَ الْقَضَاءَ عَلَيْهِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْلَى لِلْعَمَى وَ أَبْلَغُ فِي الْعُذْرِ ، الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا مَجْلُودٌ فِي حَدٍّ أَوْ مُجَرَّبٌ فِي شَهَادَةِ زُورٍ أَوْ ظَنِينٌ فِي وَلَاءٍ أَوْ قَرَابَةٍ ، إِنَّ اللَّهَ تَوَلَّى مِنْكُمُ السَّرَائِرَ وَ دَرَأَ عَنْكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَ إِيَّاكَ وَالْقَلَقَ وَ الضَّجَرَ وَ التَّأَذِّيَ بِالنَّاسِ وَ التَّنَكُّرَ لِلْخُصُومِ فِي مَوَاطِنَ الْحَقِّ الَّتِي يُوجِبُ اللَّهُ بِهَا الْأَجْرَ وَ يُحْسِنُ بِهَا الذُّخْرَ ، فَإِنَّهُ مَنْ يُصْلِحُ نِيَّتَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ اللَّهِ وَ لَوْ عَلَى نَفْسِهِ يَكْفِهِ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّاسِ , وَ مَنْ تَزَيَّنَ لِلنَّاسِ بِمَا يَعْلَمُ اللَّهُ مِنْهُ غَيْرَ ذَلِكَ يَشِنْهُ اللَّهُ ، فَمَا ظَنُّكَ بِثَوَابِ غَيْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِي عَاجِلِ رِزْقِهِ وَ خَزَائِنِ رَحْمَتِهِ ، وَ السَّلَامُ عَلَيْكَ۔”
” حمد و صلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ قضاء ایک اہم فریضہ ہے اور پیروی کیے جانے کے لائق سنت ہے ، اچھی طرح سمجھ لو جب جھگڑا تمہارے پاس لایا جائے، حق کو نافذ کرو جب کہ وہ واضح ہو جائے ، ایسا فیصلہ قطعی بے سود ہے جسے نافذ نہ کیا جا سکے۔ اپنے سامنے اپنی مجلس میں لوگوں کے درمیان برابری کا خیال رکھو تاکہ ضعیف تمہارے انصاف سے نا امید نہ ہوں اور امیر تمہاری بے جا حمایت کی لالچ نہ کریں۔ مدعی کے ذمے ثبوت ہے اور مدعی علیہ کے ذمے قسم۔ اور صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے۔ اگر کل تم کوئی فیصلہ کر چکے ہو اور آج تم پر ہدایت واضح ہوئی تو کل کا فیصلہ قبولِ حق کی راہ میں مانع نہ ہو کیونکہ حق قدیم ہے اور باطل پر جمود اختیار کرنے سے حق کو اختیار کرنا کہیں بہتر ہے۔ جن معاملات میں تم تک کتاب و سنت سے کوئی ہدایت نہیں پہنچی اور وہ تمہارے سینے میں کھٹکتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھو ، امثال و اشباہ ( ملتے جلتے مسائل ) سے واقفیت حاصل کرو پھر جو امور درپیش ہیں انہیں ان پر قیاس کرو اور جو تمہارے نزدیک اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور تمہیں حق سے قریب تر نظر آئے اسے اختیار کر لو۔اگر کوئی مدعی کسی غیر موجود حق کا یا کسی معیادی ثبوت کا دعویدار ہو تو مقدمہ کی تاریخ دے دو ، اگر وہ ثبوت لے آئے تو اس کا حق اس کے حوالے کر دو ورنہ تم عذر تک پہنچ جاؤ گے ( یعنی اس کے خلاف فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہو گے )۔ مسلمان آپس میں سب عادل ہیں سوائے اس کے جس پر حد جاری ہو چکی ہو ، یا جس کی جھوٹی شہادت ثابت ہو چکی ہو ، یا جو ولاء اور قرابت میں متہم ہو ۔ بے شک اللہ تمہارے سرائر ( پوشیدہ معاملات ) سے واقف ہے اور تم پر دلائل واضح نہیں۔ خبردار رہو ! لوگوں کے فصلِ خصومات میں کبھی افسردگی ، اکتاہٹ اور لوگوں کو اذیت دینے کا باعث نہ بنو۔ کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ جس پر اللہ کی جانب سے اجر ملتا ہے۔ جس کی نیت خالص ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے اور لوگوں کے درمیان اس کی کفایت کرتے ہیں اور جو لوگوں کے لیے اپنا طاہر سنوارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو عیب دار بنا دیتے ہیں ۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے دنیا کے رزق اور اس کی رحمت کے خزانوں میں اس کے چواب سے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔”
یہ مکتوب گرامی علم و حکمت کا خزینہ ہے جس کے ذریعے مسلمان ممالک کے عمال و قضاۃ اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔