ربیع الاول، ربیع الثانی1436ھ
جنوری، فروری2015ء شمارہ 34 اور 35
پاکستان
صائمہ طارق
ابو عمار سلیم
سانحہ پشاور میں دہشت گردوں نے ایک اسکول ٹیچر کو بچوں کو بچانے کے جرم میں پٹرول ڈال کر جلا دیا تھا۔ اس ٹیچر کا نام صائمہ طارق تھا۔ طارق سعید ان کے شوہر ایک فوجی افسر ہیں اور فوج کے ایویشن کے محکمہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی بیگم کی شہادت کے موقعہ پر انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا جو ان کی فیس بک پر پوسٹ ہوا۔ اسی فیس بک کے صفحہ کو قارئین الواقعہ کی معلومات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ اس کو پڑھ کر ہمارے قارئین کو یہ اندازہ ہو سکے گا کہ اس اندوہناک واقعہ کو متاثرہ حضرات نے کس بہادری سے برداشت کیا اور یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری بہادر افواج کے جوان اپنا سب کچھ ہار کر بھی ملک کی سلامتی اور اس کے دشمنوں کا صفایا کرنے کا عزم صمیم رکھتے ہیں۔ اس قوم کو صائمہ طارق جیسی بہادر بیٹیوں اور طارق سعید جیسے سپوتوں کی ہی ضرورت ہے۔ طارق سعید اپنے پیغام میں لکھتے ہیں :
”۔۔۔۔۔ 16 دسمبر ہماری تاریخ کا ایک سوگوار دن ہے اور اب تک ہم اسے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے حوالہ سے یاد کرتے آئے ہیں مگر اب اسے ایک اور مختلف حوالہ سے بھی یاد رکھا جائے گا اور ہمارے جیسے متاثرہ افراد اس دن کی کسک اور تکلیف ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ اس حادثہ نے پوری قوم کو ایک بہت بڑا دکھ دیا ہے اور یہ قومی سوگواری عوام کے رد عمل کی صورت میں بہت واضح اور عیاں ہے۔
میری پیاری بیوی صائمہ طارق بھی اس حادثہ کا شکار ہوئی اور شہادت پائی۔ اس نے اسی سال 5 نومبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ ایک ماہر تعلیم تھی اور پچھلے سولہ برسوں سے آرمی پبلک اسکول سے اس کا تعلق رہا تھا۔ جب میں پشاور آیا تو میں نے اس کے اسکول میں نوکری کرنے کی مخالفت کی کیونکہ میں چاہتا تھا کہ وہ اب پڑھانے کی بجائے خود اپنی تعلیم پر توجہ دے اور اپنی اس تعلیم کو مکمل کر لے جو پشاور یونیورسیٹی میں پہلے سے چل رہی تھی۔ میری مخالفت کے باوجود وہ بچوں کو تعلیم دینے کے فیصلہ پر ڈٹی رہی اور مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنا فیصلہ تبدیل کروں تاکہ وہ قوم کی نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی اپنی سب سے بڑی خواہش پر گامزن رہ سکے۔
صائمہ بڑی نرم دل اور خوش گفتار خاتون تھی اور اسی وجہ سے اپنے شاگردوں میں ہمیشہ بہت مقبول رہی ہے ( اس بات کی تصدیق اس کے شاگردوں سے کی جا سکتی ہے )۔ 16 دسمبر کے حوالے سے میں نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مختلف النوع قسم کی خبریں اور تحریریں دیکھی ہیں جن میں سے بعض درست بھی ہیں اور بعض صرف افواہوں پر مبنی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ صائمہ نے اپنے شاگردوں کو ان دہشت گردوں سے بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کر دی اور انتہائی بہادری سے شہادت کا جام پی لیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا اور کیسے ہوا اس پر کچھ لکھنا بہت تکلیف دہ ہے مگر حق تو یہ ہے کہ ان ظالم دہشت گردوں نے اسے جلا ڈالا تھا۔ اس سے آگے اس معاملہ پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ وہ سب باتیں جو حقیقت سے دور افواہوں پر مبنی ہوں ہماری فیملی کے لیے بہت اذیت ناک اور تکلیف دہ ہیں۔
میں نے لوگوں کے ایسے ریمارکس بھی دیکھے ہیں جس میں کہا گیا کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے بڑی سست روی کا مظاہرہ کیا اور لوگوں نے انہیں بری طرح مورد الزام ٹھہرایا جو کہ غلط ہے۔ میں لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ صرف پشاور چھاؤنی کی حدود میں 84 اسکول موجود ہیں جبکہ پورے شہر میں سیکڑوں دیگر اسکول ہیں سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی محدود نفری کے ساتھ ان تمام اسکولوں کی حفاظت نہیں کر سکتی ہیں۔ میں بذات خود اس حادثہ کا ایک متاثر ہوں مگر اس کے باوجود میں اپنے سیکیورٹی کے اہلکاروں کو خصوصی طور پر اور پاک افواج کو عمومی طور پر سیلوٹ کرتا ہوں کہ انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہم تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ حادثہ کے وقت اسکول میں 1100 بچے موجود تھے اور ان میں سے 950 بچے صحیح سلامت اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔ میں اپنے فوجی بھائیوں کی زبردست بہادری اور کارکردگی کا چشم دید گواہ ہوں کیونکہ میں وہاں اس وقت موجود تھا اور دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے کس طرح سے اس نقصان کو زیادہ ہونے سے روکا۔ SSG نے انتہائی بہادری اور مہارت کا مظاہرہ کیا اور تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان دہشت گردوں اور بچوں کے درمیان میں آہنی دیوار بن گئے اور 950 بچوں کو بچا لیا۔ چاہیے کہ ہم ان فوجی جوانوں پر طعن و تشنیع بند کر کے ان کی پیٹھ تھپکیں اور ان کی کوششوں کی تعریف کریں۔
اگر اس بہیمانہ کارروائی سے ان دہشت گردوں کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ڈرائیں اور خوفزدہ کریں تو میں یہ کہوں گا کہ ان تحریک طالبان پاکستان والوں نے غلط اندازہ لگایا ہے اور ایک غلط دشمن کا انتخاب کیا ہے۔ میں سوگوار ضرورہوں اس لیے کہ میں ایک انسان ہوں اور مجھ سے میرا عزیز ترین ہم سفر بچھڑ گیا ہے مگر واضح رہے کہ میں ڈرا ہوا نہیں ہوں بلکہ اس واقعہ نے میری ہمتوں میں مزید اضافہ کیا ہے اور اب میں ان کے خلاف جنگ میں پہلے سے زیادہ شدید ہو گیا ہوں۔ میں اپنی بیوی کی قربانی اور اس کی شہادت پر خوش ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور معاشرہ میں تبدیلی کے آغاز کا بیج بو دیا ہے۔
میں اور میری فیملی کا ہر فرد ان تمام لوگوں کا ممنون ہے جن میں ہمارے دوست ، عزیز و اقارب ، میرے کورس میٹ ، فوجی ہوا باز ، جنرل افسرز ، پی ٹی آئی کے ایم این اے ، ایم پی اے اور وزراء اور خیبر پختون خواہ کے چیف منسٹر وغیرہم بھی شامل ہیں۔ میں ان لوگوں کا بھی ممنون ہوں جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہم تک نہ پہنچ سکے مگر مجھے اور میرے گھر والوں کو فون کیا اور ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
صائمہ تم نے اپنی جان دے دی مگر قرآن کریم کے ارشاد کے بموجب امر ہو گئیں۔ تم نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ہم سب کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ہم اپنی زندگی میں تمہیں ہر لحظہ یاد رکھیں گے۔ ان شاء اللہ۔”
جس عزیمت کے ساتھ صائمہ طارق کے افرادِ خاندان نے اس آزمائش کا سامنا کیا وہ دہشت گردوں اور اسلام دشمن قوتوں کی ناکامی کا بین ثبوت ہے۔ اس قوم میں آج بھی وہ زندگی پائی جاتی ہے جو دشمن کے ارادوں کو ناکام کر سکے۔ پاکستان کے بیرونی دشمن ہوں یا اندرونی ، انہیں جان لینا چاہیئے کہ وہ موت کا خوف دلا کر پاکستانی قوم کو بزدل نہیں بنا سکتے۔ ہماری ایمانی طاقت ہی بالآخر انہیں نیست و نابود کر کے رکھ دے گی۔