ہمارا میڈیا، اخلاقی گراوٹ کا سیلِ رواں


محرم و صفر 1436ھ

نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33لمحہ فکریہ

لمحہ فکریہ

ہمارا میڈیا  ، اخلاقی گراوٹ کا سیلِ رواں

راحیل گوہر07 Hamara media title

online urdu

انسان بدن اور روح کا مرکب ہے، ان دونوں عناصر کی مریضانہ یا صحت مند آبیاری انسان کے اپنے طرز عمل پر منحصر ہے۔ روح امر رب ہے اور بدن کو خالق کائنات نے گندے پانی کی ایک بوندسے پروان چڑھایا ہے، پھر ان دونوں کے مرکب انسان کو مسجود ملائک بنا دیا اور ارشاد ربانی ہوا :

فَإِذَا سَوَّيۡتُهُۥ وَ نَفَخۡتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُۥ سَٰجِدِينَ ٢٩ (الحجر : 29 )

” پس جب میں اسے درست کر لوں اور اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔”

جب انسان کی بد اعمالیوں اور سر کشی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق کمزور پڑنے لگتا ہے تو ابلیسی قوتیں اس کے وجود پر غالب آ جاتی ہیں ، روح مضمحل ہونے لگتی ہے اور انسان فسق و فجور کی جانب مائل ہو جاتا ہے اور یوں اچھا بھلا انسان وحشی کا روپ دھار لیتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء نے جہاں انسان کے لیے فلاح و خوشحالی اور زندگی کی بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں ، دنیا سمٹ کر ایک چھوٹے سے دائرے میں سما چکی ہے ، انسان کی انگلی کے ایک ٹچ سے پوری دنیا اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ فاصلے اپنا وجود کھو چکے ہیں اور منزلیں آسان ہوگئی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مادی وسائل اور آسائشوں کا سہل الحصول ہونا اپنے دامن میں برائیوں ، شیطنت اور اخلاقی بے راہ روی کا ایک سیل رواں بھی ضرور لاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا خاصہّ ہے۔

عالمی سطح پر انسانوں کے قلوب و اذہان کو مسخر کرنے والا میڈیا ، جو ایک جانب علم و تحقیق اور عالمی افق پر ابھرنے والے حالات و واقعات کی فراہمی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جو ہر لمحہ ہمیں حالات حاضرہ سے با خبر رکھتا ہے اور اس حیران کن ایجاد نے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤ ں کی شکل دے دی ہے۔ یہی میڈیا جو اپنے وجود میں علم و آگہی کا سمندر ہے ، انسان کے اخلاق و کردار کے بگاڑ اور نسلوں کی تباہی و بربادی کا بہت بڑا مرکز و محور بھی ہے۔ جو انسان کی اندر چھپی شیطنت کو ابھارنے اور ان کے نفسِ امارہ میں انتشار و ہیجان پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔

پرنٹ اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا جو اس وقت عالمی استعماری قوتوں کا آلۂ کار بن کر پوری دنیا میں سامنے آیا ہے۔ جس میں ہمارا ” اسلامی جمہوریہ پاکستان ” بھی اس عالمی میڈیا کی یلغار کا شکار بن چکا ہے۔ وہ نہ صرف استعماری ، خصوصاً اسلام دشمن ملٹی نیشنل کمپنیوں کو معاشی مدد فراہم کر رہا ہے ، ان کی اخلاق باختہ ثقافت کو فروغ دے رہا ہے ، بلکہ حوا کی بیٹیوں کو اپنے فریبِ حسن اور کشش (Glamour) سے سحر زدہ کرکے نہ صرف تشہیر کا ذریعہ بنا کر پیش کر رہا ہے بلکہ اسے ایک تجارتی جنس (Commodity)  یعنی بیچنے والی چیز کی حیثیت دے رکھی ہے اور جس انداز سے میڈیا کے ذریعے عورت کی تذلیل کی جارہی ہے وہ اسلامی معاشرے کے لیے خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے۔ پرائیوٹ چینلز کی بہتات سے قبل ہمارا پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کافی حد تک ریاست کے کنٹرول میں تھا اور اس پر کچھ نہ کچھ احتساب اور جواب دہی کا خوف تھا۔ لیکن اب نجی چینلز کی بھرمار اور ان کے اسکرین پر نشر ہونے والے طوفان بد تمیزی سے آلودہ اور حیا سوز پروگراموں نے معاشرے کے ہر گھر کو متاثر کیا ہوا ہے ،  جبکہ دوسری جانب کیبل اور نیٹ ورک نے ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے اور اس میں ریاستی میڈیا کا بھی حصہ بقدر جثہّ شامل ہے۔ ٹی وی ڈراموں ، فلموں ، ناچ گانوں کے واہیات پروگرامز اور ان پرگراموں کے درمیان چلنے والے اشتہارات میں عورت کو نیم برہنہ حالت میں دکھایا جاتا ہے۔ ایسی ایسی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے کہ جسے خاندان  کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی مردانہ استعمال کی چیز ایسی نہیں جس میں عورت کو شامل نہ کیا گیا ہو۔ بلیڈ اور شیونگ کریم جیسی پروڈکس میں بھی عورت اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آ رہی ہوتی ہے۔ اس سارے اخلاقی گراوٹ میں لتھڑے کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔ عورتوں کو بطور جنس پیش کرنے کا نتیجہ نوجوانوں میں جنسی ہیجان ابھارنے کا ذریعہ بن رہا ہے اور عورتوں اور خاص طور پر کمسن بچیوں پر جنسی زیادتی کے واقعات میں روز افزوں اضافہ اسی ترغیب و تشویق کا منطقی نتیجہ ہے جو مادر پدر آزاد میڈیا کی جانب سے دی جا رہی ہے اور کچے ذہنوں میں زہر انڈیلا جا رہا ہے۔

ایک طرف میڈیا تہذیب و اخلاق سے عاری پروگرامز اور عریانیت و فحاشی دکھا کر جنسی بے راہ روی کی آگ کو بھڑ کا رہا ہے تو دوسری طرف عالم انسانیت میں انتشار و افتراق پھیلانے کا بہت بڑا محرک ثابت ہو رہا ہے۔ واقعات و حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ رنگ دینا ، نجی اور بین الاقوامی تعلقات میں غلط فہمیوں کی فضا پیدا کرنا ، سچے اور مخلص رہنماؤں کی طرف سے قوم کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے بیج بونا ، فرقہ واریت کو فروغ دینا ، رائی کا پہاڑ بنا دینا ، نا اہل ، نا قابل اعتبار اور معاشرے میں سازشی ذہن رکھنے والے اور مفاد پرست افراد کی تعریفوں کے پل باندھ دینا ، عوام کے اصل مسائل سے صرف نظر کرکے غیر ضروری ، لا یعنی اور جزیاتی امور پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھنا ، بحث مباحثوں اور ٹاک شوز کی محفلیں سجا کر گھنٹوں بیٹھے رہنا اسی میڈیا کے بیشتر عناصر کا معمول بن گیا ہے۔ کسی کی آنکھ کے شہتیر پر پردہ ڈالنا اور کسی کی آنکھ کے تنکے کو نمایاں کر کے سکرین پر لانا ہمارے اور بین الاقوامی میڈیا کا طے شدہ ایجنڈا ہے۔ جس سے انہیں کثیر سرمایہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میڈیا کی سرپرستی اور فنڈنگ بیرون ممالک سے ہی ہوتی ہے۔

ابلاغ (comunication) خواہ قلم و قرطاس کے ذریعے سے ہو یا کیمرے اور اسکرین کے توسط سے اس کی حرمت اور تہذیب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا صحت افزا ، مثبت سوچ اور تہذیبی اقدار کے معیار کو پست نہ ہونے دینا ابلاغ کے ارباب بست و کشاد کی اہم ذمہ داری ہے اور اس سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ قوموں اور نسلوں کے اندر ، اور خاص طور پر قوم کے نو نہالوں کے ذہنوں میں اخلاقی کجروی اور حیوانیت کے شجر خبیثہ کا بیج ڈال دینا شیطنیت کا ثبوت ہے جو فحاشی ، عریانیت ، انسانی اعلیٰ قدروں کی پامالی ، خبائث و نجاستوں کو فروغ دے کر ایک صالح معاشرے کو کچرے کا ڈھیر بنا دیتا ہے اور ایسے معاشروں سے امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔ پھر نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ جان و مال۔ پھر دولت کمانے کے لیے عصمت فروشی ، دلالی اور لڑکیوں کی خرید و فروخت (women trafficking)  جیسے تباہ کن راستے بھی کھل جاتے ہیں۔

عصر حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کو عالم اقوام ، جن میں ترجیحاً امت مسلمہ ہے ، کو اپنا محکوم بنانے اور ان پر اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے ہر زاویے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اب مغربی طاقتوں نے دوسری اقوام کو غلام بنانے کی حکمت عملی (strategy) تبدیل کر دی ہے۔ اس نے پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ کیونکہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز شے ہے۔

ڈاکٹر میری ہیباک Marry Habeck  Yale Universityمیں سٹریٹجک اسٹڈیز کی پروفیسر رہی ہیں۔ ان کے موضوعات میں امریکی دفاعی پالیسی ، اسلام بطور دین ، تہذیب و قانون ، فوجی ، تاریخ اور حکمت عملی وغیرہ شامل ہیں۔ موصوفہ نیشنل سیکورٹی کونسل ، حکومت امریکا میں بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ اپنی کتاب Jihadist Idiology and the War on Terror میں لکھتی ہیں : ” اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ دشمن کون ہے؟ اس کا جواب ہم نے یہی پایا کہ دشمن اسلام ہے۔ اسلام سے ہماری دشمنی نئی نہیں ، یہ صلیبی جنگوں سے بھی پرانی ہے۔ دنیا میں سیاسی میدان میں سرمایہ داری کا مقابلہ کسی سے نہیں ، صرف اسلام ایک مزاحمت کی حامل قوت ہے،  اس کا راستہ روکنا بہت ضروری ہے۔ اسلام پر براہِ راست حملے کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ، اس کے باوجود اس پر متبادل راستوں سے حملہ جاری رہے گا۔ بنیاد پرست ، جنگجو ، انقلابی ، سیاسی ، یہ سارے نام اس حملے کو آسان بنانے میں معاون ہیں ، ان کا استعمال جاری رہے گا۔ اسلام میں جہاد کا تصور واضح ہے لیکن مزاحمت کی قوت بھی یہی ہے۔ اس لیے اسلام اور اس کے پیرو کاروں پر اسے ترک کرنے کے لیے دباؤ جاری رہے گا۔”

ان تمام منصوبوں اور پیش بندیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم امہ کے لیے ان کے کتنے خطرناک عزائم ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے مغرب کتنی مربوط اور جامع منصوبہ بندی کے تحت عمل کر رہا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس نے میڈیا کو اپنا بڑا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ جہاں خصوصی طور پر مسلم معاشروں کا اخلاق و کردار تباہ کر رہا ہے وہاں سیاسی ، نظریاتی اور ہماری جغرافیائی قوتوں کی بھی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور ہم بحیثیت امت مسلمہ مجموعی اعتبار سے اب بھی خوابِ غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ مغربی طاقتیں اچھی طرح یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام کی دبی ہوئی چنگاری کو ذرا بھی ہوا لگ گئی اور وہ بھڑک اٹھی تو ہمارے خرمنِ تہذیب کو جلا کر بھسم کر دے گی۔

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور ویب سائٹس کا پھیلاؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک کے بڑے بڑے اخبار اور جریدے خود عالمی اطلاعاتی اداروں سے خبریں حاصل کر نے پر مجبور ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے سے حالات حاضرہ اور دیگر امور میں معلومات کی فراہمی اور وصولی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ بھی ہر قسم کی پابندی سے مبرا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے اور انٹرنیٹ کے توسط سے جو کچھ اسلامی ممالک میں دیکھا اور دکھایا جا رہا ہے اس سے ہر تعلیم یافتہ اور net user بخوبی واقف ہے۔

ذہنی ،علمی ، سیاسی اور جدید ذرائع ابلاغ سے کما حقہ واقفیت کا فقدان اور اس سے بھی بڑھ کر دین سے دوری مسلمانوں کے موجودہ زوال اور نکبت و ادبار کا اصل سبب ہے۔ اسلام ایک مکمل دستورِ حیات ہے ، اس کی بے مثال تعلیمات میں انسان کے ہر مسئلے اور اشکالات کا جامع حل موجود ہے۔ اس کی تعلیمات میں مجرموں ، بد کرداروں ، ملک و قوم کے باغیوں ، اخلاق و انسانیت کے دشمنوں اور دین و ملت کے سرکشوں کے لیے واضح ہدایات ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلۡفَٰحِشَةُ فِي ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٞ فِي ٱلدُّنۡيَا وَ ٱلۡأٓخِرَةِۚ وَ ٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَ أَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ ١٩  ( النور : 19 )

” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہوں میں فحاشی پھیلے ، وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں ، اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔”

سورۂ نور کی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ان الفاظ میں وضاحت کر تے ہیں:

” موقع محل کے لحاظ سے تو اس آیت کا براہِ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں ، لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار ، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعتِ فحش کے ان تما م ذرائع و وسائل کا سدّباب کرے۔ اس کے قانونِ تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزمِ سزا ، قابلِ دست درازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔” ( تفہیم القرآن ج 3 )

ہمیں سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ تفریح اور کلچر دراصل ہے کیا ؟  اور دوسرے ریاستی اداروں کو بھی یہ بات طے کرنا ہوگی کہ آزاد میڈیا کا تصور کیا ہے ؟ اور یہ نہ صرف حکومت بلکہ ملک کے دیگر معاشرتی اور سماجی اور مذہبی اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے ایجنڈے میں سماجی اصلاحات کو فوقیت دیں۔ کیونکہ ان اصلاحات میں ہم سب کے لیے بڑا چیلنج میڈیا کے منفی کردار کے خلاف ایک بڑی اور منظم مزاحمتی تحریک پیدا کرنا ہے ، یہ ہماری نئی نسل کے اخلاق و کردار کی نفاست کے لیے وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ پھر میڈیا سے وابستہ ذمہ داران کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے طرز عمل کا خود احتسابی کی نیت سے جائزہ لیں کہ وہ کس کے مذموم ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں اور کچے ذہنوں میں وہ محض اپنے مالی فائدے اور اپنی دنیا بنانے کے لیے آخرت کے کتنے بڑے خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ البتہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں میڈیا کے منفی اور اخلاقی گراوٹ کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور کہیں کہیں احتجاج بھی ہو رہا ہے لیکن اس احتجاج میں اجتماعیت کا فقدان ہے ، اس لیے یہ کمزور سا احتجاج نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہا اور میڈیا کی چیرہ دستیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

کسی ملک کے معاشی ، اقتصادی اور سیاسی مسائل بلا شبہ غور طلب ہوتے ہیں ، اگر ان پر فوری توجہ نہ دی جائے تو ملک کے استحکام اور اس کی خوشحالی مخدوش ہو جاتی ہے ، لیکن اس قوم کا اخلاقی مسئلہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ، بلکہ سیاسی اور اقتصادی بگاڑ بھی اسی اخلاقی کجروی کا رد عمل ہوتا ہے جس کا پھیلاؤ کاروبار زندگی کے ہر شعبے میں در آتا ہے۔

اگر اخلاقی برائیوں کی اصل بنیاد کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بے ضمیری اور بے حسی کی واضح علامت ہے اور اس میں ہماری شخصی اور آمرانہ حکومتوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ ہر برائی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف اپنے برگ و بار پھیلاتی ہے اور اس بے ضمیری اور اخلاق باختگی میں سب سے پہلا شکار طبقۂ اشرافیہ ہوتا ہے۔ جہاں اظہار خیال کی آزادی ہو وہاں لوگ اپنے ضمیر کے مطابق حق کی آواز بلند کر سکتے ہیں ، لیکن جہاں ظلم ہو اور لوگ مظلوم بن کر ظلم برداشت کرنے کے عادی ہو جائیں وہاں سب سے پہلے اخلاقیات کا جنازہ نکلتا  ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی معاشرہ کی اصلاح کے سلسلہ میں اقتدار کی درستی پر زور دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ ” جہاں اقتدار کی نوعیت غلط ہوگی وہاں معاشرت بھی بگڑ جائے گی اور معیشت کا بھی زوال ہوگا۔” اس کی مثال دیتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا کہ ” جب اقتدار غلط ہوگا تو ایسے پیشوں کی سر پرستی ہوگی جن کا عام آدمی کی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ، سرکارکے دربار میں ناچنے گانے والے ، طبلچی ، سازندے ، قصیدہ گو ، مسخرے ، واہ واہ کرنے والے مصاحب اور حکمراں کی ذات کے لیے دعا کرنے والے علماء و مشائخ ، حکومتی خزانے کی وہ رقم لے جاتے ہیں جو محنت کش اور دست کار اپنی محنت شاقہ کے بعد ٹیکسوں کی مدات میں ادا کرتا ہے۔ لیکن حکومت ان طبقات کے کام میں مدد اور بہتری پیدا کرنے لیے کچھ نہیں کرتی ، ٹیکسوں کا روپیہ اپنی ہی عیاشیوں اور اپنے پروردہ مفت خور طبقات پر خرچ ہوتا ہے ، سڑکوں ، نہروں کی درستگی کے بجائے رقم خوبصورت محلات تعمیر کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔” شاہ صاحب کے ان خیالات کی روشنی میں یہ امرلازم ہو جاتا ہے کہ معاشرہ کی مجموعی اخلاقی حس کو بیدار کیا جائے۔

مغرب تو ترقی کے مدارج طے کرنے کے بعد آج اس لیے روبہ زوال ہے کہ اب اس کے پاس مزید ترقی کے امکانات نہیں ہیں ، مغرب کے سامنے آج کوئی مقصد حیات نہیں سوائے زیادہ سے زیادہ لطف اندوزی اور لذت پرستی کے حصول کے ، آج مغرب اپنی سمت اور مقصد گنوا چکا ہے۔ اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر بھی تہذیبی اعتبار سے اس کا دامن خالی ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے سامنے ایک عظیم مقصد ہے اور وہ ہے اپنی عظمت ِرفتہ ، اپنی تہذیبی میراث اور قومی روایات کی نشا ة الثانیہ۔ بقول علامہ اقبال

وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نورِ  توحید  کا  اتمام  ابھی  باقی  ہے

چنانچہ اس وقت جبکہ تیسری دنیا کے عوام میں خود آگہی اور قومی روایات کی لہر بیدار اور حریت فکر و عمل کی صبحِ نو طلوع ہو رہی ہے ، مغرب کے زوال کا نعرہ بلند کر کے مغرب کی بیماری کا علاج مشرق میں تلاش کرنے کا مقصد ،  مشرق کے عوام کو ذہنی طور پر پرا گندہ کرنا اور انہیں اپنے اصل مقصدِ وحید سے منحرف کرنا ہے اور اپنی صناعی کے جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے امت مسلمہ کے اخلاق کا جنازہ نکال کر ان کو ایمان و یقین کی دولت سے تہی دامن کرنا مقصود ہے۔

کبھی مسلمانوں کی پہچان یہ تھی کہ ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے بسر ہوتیں اور خشیت الٰہی سے ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوتی تھیں ، اور ان کے دن گھوڑوں کی پیٹھوں پر گزرتے تھے ، وہ بلا شبہ رات کے راہب اور دن کے شہسوار تھے ، مگر اب وقت بدل گیا ہے ، اب ہم میں سے بیشتر کے دن غمِ روزگار میں اور راتیں عیش عشرت اور لہو و لعب میں بسر ہوتی ہیں۔ آج جو کلچر ہم نے اپنایا ہوا ہے وہ موج مستی اور طاؤس و رباب کا ہے ، اسراف و تبذیر اور نمود و نمائش کا ہے اور ہمارا میڈیا فن اور کلچر کے نام پر نئی نسل کو بے راہ روی کی طرف راغب کرنے ، مخلوط رنگین محفلوں سے مزین پروگرامز پیش کرنے  ، مشرقی شرم و حیا کو دقیانوسیت کا ٹائٹل دینے ، مذہب کو مذاق کا نشانہ بنانے ، اکابرین اسلام کی تحقیر کرنے اور خاندانی اکائی کی جڑیں کھوکھلی کر نے میں ہر اول دستے کا کر دار ادا کر رہا ہے۔ اگر میڈیا کی سکرین سے پھیلائی جانے والی فحاشی ، عریانیت ، اخلاقی گراوٹ ، مغرب کی کھوکھلی تہذیب و تمدن کی نقالی اور اس کی مادر پدر آزاد طرز زندگی کی چمک دمک کی نشر و اشاعت کے اس سیلِ رواں پر مضبوط بندھ نہ باندھا گیا تو یہ ہماری اخلاقی ، سماجی اور تہذیبی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ چنانچہ اصلاحِ حال کے لیے کوئی مثبت اور نتیجہ خیز قدم اٹھانا ہماری قومی ، نسلی ، اخلاقی اور سماجی بقاء و سلامتی کے لیے انتہائی نا گزیر ہے ، لیکن اس جانب قدم بڑھاتے ہوئے یہ حقیقت بھی ذہن میں مستحضر رہے کہ معاشرے میں پھیلتی کسی بھی برائی اور گندگی کو صاف کرنے اور ماحول کو نفیس و ستھرا کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت

ہوتی ہے۔ ہمیں پورا معاشرہ نئے سرے سے تعمیر کرنا ہے اور یہ کام اجتماعی سطح پر مضبوط اخلاقیات اور ضمیر کی طاقت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جس قوم کے پاس نہ معاشی استحکام ہو ، نہ سائنس و ٹیکنالوجی کی قوت ، نہ ہی ریاستی اداروں کی اخلاقی صحت کا کوئی وجود ، اس پر مستزاد اوپر کی سطح پر ارباب اقتدار کو مادہ پرستی اور ہوس زر کا سرطان لاحق ہو گیا ہو تو راہِ ہدایت سے محروم ایسی قوم کے لیے سب سے پہلے اپنے اجتماعی اخلاق و کردار کی درستگی اور اپنے فکر و عمل میں صحیح اور راست سمت کا تعین نا گزیر ہو جاتا ہے۔ اگر حقیقت حال کے اس گمبھیر پہلو سے نظریں چرائیں تو ہمیشہ ہم ایک ایسی منزل کی جانب محوِ سفر رہیں گے جس کا اختتام بند گلی پر ہوتا ہے۔

حسن اخلاق سے، جوش ایثار سے

قوم بنتی ہے، دنیا میں کردار سے

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.