محرم و صفر 1436ھ نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33
قرآنیات
تکبر اور اس کے نتائج قرآن کریم کی روشنی میں
اختر احسن اصلاحی
قرآن مجید کی متعدد آیات کے مطالعے سے اور عقلاً بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا گناہ جراة علی اللہ اور تمرد و سرکشی ہے۔ یہ معصیت ام المعاصی ہے۔ اس کے نتائج اور ثمرات اس قدر مہلک ہوتے ہیں کہ اس کے سامنے شرک کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ شرک کے گناہِ عظیم ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن شرک کوئی ایسا مرض نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو سکتا ہو۔ ایک مشرک سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر اس کے سامنے شرک کی برائیاں بیان کی جائیں اور خدا کی وحدانیت کے دلائل اس کو سمجھائے جائیں تو ممکن ہے وہ باطل پرستی سے تائب ہو کر سچا حق پرست بن جائے۔ لیکن ایک ایسے شخص سے جو کبر و غرور کے نشہ میں سر شار ہو توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کبھی راہ راست پر آئے کیونکہ وہ اپنے تکبر کی بناء پر کلمہ حق سننے تک کا روادارنہ ہو گا۔ پھر اس کی اصلاح ہو تو کیونکر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کی دعوت سب سے پہلے وہ لوگ قبول کرتے ہیں جن کے دل غرور سے پاک ہوتے ہیں جب کسی انسان پر غرور و استکبار کا بھوت سوار ہو جاتا ہے تو پھر اس کے سامنے ساری حجتیں بیکار ہو جاتی ہیں ، تبلیغ و ارشاد کے تمام طریقے بے سود ہو جاتے ہیں جن کو قبول کرنا تو در کنار ، اس کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا ۔
وَ إِذَا تُتۡلَىٰ عَلَيۡهِ ءَايَٰتُنَا وَلَّىٰ مُسۡتَكۡبِرٗا
كَأَن لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا كَأَنَّ فِيٓ أُذُنَيۡهِ وَقۡرٗاۖ
” اور جب ان میں کسی کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اکڑتا ہوا منہ پھیر کر چل دیتا ہے جیسے اس نے ہماری آیتوں کو سنا ہی نہیں ، گویا اس کے دونوں کانوں میں ٹینٹ ہیں۔”(لقمان : 7 )
يَسۡمَعُ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ تُتۡلَىٰ عَلَيۡهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسۡتَكۡبِرٗا كَأَن لَّمۡ يَسۡمَعۡهَاۖ
” وہ اللہ کی آیتوں کو پڑھتے ہوئے سنتا ہے پھر بھی مارے غرور کے اڑا رہتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں۔” ( جاثیہ : 8 )
یہی نہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی حق بات سننے سے روکتا ہے مبلغین کی راہوں میں روڑے اٹکاتا ہے۔ ان کی توہین اور آزار کے درپے ہوتا ہے۔
وَ مِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡتَرِي لَهۡوَ ٱلۡحَدِيثِ
لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٖ وَ يَتَّخِذَهَا هُزُوًاۚ
” اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو واہیات قصے کہانیاں مول لے لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو بے سمجھے بوجھے راہِ خدا سے بھٹکائیں اور آیات الٰہی کی ہنسی اڑائیں ۔” ( لقمان : 6 )
اور جب ہمارے آیتوں کی خبر پاتے ہیں تو ان کی ہنسی بناتے ہیں۔ یہ انہیں لوگوں کا بیان ہے جن کے سروں میں کبر و غرور کا سودا سمایا ہوا ہے ۔ سورہ فاطر کی ایک آیت میں بالکل تصریح کر دی گئی ہے کہ حق سے اعراض کا سبب استکبار ہے ۔
فَلَمَّا جَآءَهُمۡ نَذِيرٞ مَّا زَادَهُمۡ إِلَّا نُفُورًا ٤٢ ٱسۡتِكۡبَارٗا فِي ٱلۡأَرۡضِ
” پھر جب ڈرانے والا ان کے پاس آ پہنچا تو اس کے آنے سے ان کی نفرت کو ترقی ہو گئی غرور کرنا ملک میں ۔” ( فاطر : 42 – 43 )
غرض حق سے اعراض ، اعراض پر اصرار ، افترا پردازی ، آیات کی تکذیب ، انبیاء کے ساتھ استہزاء اور ان کی تو ہین ، یہ ساری باتیں استکبار کے نتائج و ثمرات ہیں اور یہ وہ جرائم ہیں جو ابلیسانہ اور مجرمانہ حرکتوں کے آخری مظاہر ہیں اسی بناء پر خدا نے ان تمام لوگوں کو جو ان اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں سب سے بڑا ظالم اور مجرم قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا :
وَ مَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بَِٔايَٰتِ رَبِّهِۦ فَأَعۡرَضَ عَنۡهَا وَ نَسِيَ مَا قَدَّمَتۡ يَدَاهُۚ
” اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس کو رب کی آیتوں سے تذکیر کی جاتی ہے اور وہ ان سے اعراض کرتا ہے اور بھول جاتا کہ اس کے ہاتھوں نے کیا پیش کیا ۔” ( کہف : 57 )
اس کے ہم معنی آیات بے شمار ہیں لیکن ہم طوالت کے خوف سے انہیں ذکر نہیں کرتے ۔ جب نوبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اب مرض لا علاج ہے جتنی ہی دیر ہو گی۔ فساد کے جراثیم بڑھتے جائیں گے۔ اس کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہلاکت و تباہی کا آخری اعلان سنا دیا جائے تا کہ خدا کی مقدس سر زمین اس کے صالح بندوں کے لیے خالی ہو جائے۔ قرآن پاک میں جن قوموں کی تباہی کا حال بیان کیا گیا ہے ان کی ہلاکت کا اصلی سبب یہی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے استکبار کی بناء پر خدا کے پیام کو بُری طرح ٹھکرا دیا اور طغیان و سرکشی کے نشہ میں رسولوں کی دعوت کا سننا تو در کنار ان کی تو ہین اور ایذا کے درپے ہو گئے۔ غور کیجئے نوح علیہ السلام اپنی قوم کی سرکشی سے عاجز آ کر اس کی ہلاکت کی دعا کرتے ہیں تو اس کا سبب کیا بیان کرتے ہیں ؟ فرماتے ہیں :
وَ إِنِّي كُلَّمَا دَعَوۡتُهُمۡ لِتَغۡفِرَ لَهُمۡ جَعَلُوٓاْ أَصَٰبِعَهُمۡ فِيٓ ءَاذَانِهِمۡ وَٱسۡتَغۡشَوۡاْ ثِيَابَهُمۡ وَ أَصَرُّواْ وَ ٱسۡتَكۡبَرُواْ ٱسۡتِكۡبَارٗا ٧
” اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ لیے اور ضد کی اور غرور کیا بڑا غرور ۔” ( نوح : 7 )
اخیر میں فرماتے ہیں :
إِنَّكَ إِن تَذَرۡهُمۡ يُضِلُّواْ عِبَادَكَ وَ لَا يَلِدُوٓاْ إِلَّا فَاجِرٗا كَفَّارٗا ٢٧
” اے خدا اگر تو ان کو چھوڑ دے گا ( یہ تباہ نہ کر دیے جائیں ) تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو بھی پیدا ہوں گے وہ بد کردار اور نا شکرے ہوں گے ۔ ” ( نوح : 27 )
شیطان کا تمرد
تمرد کی واضح مثال شیطان کی ہے جس کا قصہ قرآن کی متعدد سورتوں میں مذکور ہے۔ اس نے تمرد ہی کی بناء پر فرمان ایزی کی اطاعت سے انکار کر دیا اور تمرد ہی کی بناء پر اسے خدا کے سامنے اس اعلان کی جرات ہوئی کہ ” میں تیرے بندوں کو ہمیشہ تیرے رستے سے بہکاتا رہوں گا ” اور اسے یہ تو فیق نہ ہوئی کہ اپنی نا فرمانی پر پشیمان ہوتا اور توبہ کرتا کہ توبہ کرنے والوں کے لیے رحمت باری کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ کیا آدم سے خدا کے حکم کی نا فرمانی نہیں ہوئی تھی لیکن اس کا سبب غرور نہ تھا بلکہ غفلت تھی جو تقاضا بشریت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی انہیں تنبیہہ ہوئی فوراً توبہ کی ۔
بنی اسرائیل کا تمرد
قرآن کریم میں جس کثرت اور تفصیل سے بنی اسرائیل کا ذکر آیا ہے غالباً کسی قوم کا نہیں آیا اگر بنی اسرائیل کی پوری تاریخ حضرت موسیٰ سے لے کر آنحضور ﷺ کے زمانے تک سامنے رکھی جائے تو ان کے عروج و زوال کی ایک مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے آ جائے گی۔ بنی اسرائیل کا ایک وہ زمانہ ہے جب ان پر خدا کی نعمت اور رحمت کا فتح باب ہوتا ہے وہ فرعون جیسے سرکش بادشاہ کے پنجہ استبداد سے حضرت موسیٰ کے ہاتھوں نجات پاتے ہیں اور استخلاف فی الارض کے لیے منتخب ہوتے ہیں ، بادشاہت اور تخت و تاج کے مالک ہو تے ہیں۔ ان کو خدائے برتر کی جانب سے ایک عہد نامہ ملتا ہے کہ اگر تم لوگ میرے احکام و قوانین کی تعمیل کرو گے تو تم زمین کے وارث رہو گے اور میری برکتوں اور نعمتوں کے ہمیشہ مستحق رہو گے اور اگر تم نے میرے عہد کو توڑا تو تم میرے غضب و عذاب کے مستحق ہو جاؤ گے یہ خدا کا بنی اسرائیل کے ساتھ عہد تھا۔ یہ عہد ہر اس قوم سے ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں نظام عالم کی باگ دی جاتی ہے تاکہ کارخانہ کائنات درہم برہم نہ ہونے پائے بنی اسرائیل اس عہد پر قائم نہ رہے۔ ان کے اندر دولت و ثروت ، تخت و تاج اور مذہبی پیشوائی کا غرور پیدا ہو گیا۔ پھر انہوں نے اس نشہ میں احکام خداوندی کی ایک ایک دفعہ کی نا فرمانی کی ، انبیاء اور پیغمبر ان کی تذکیر اور تجدید عہد کے لیے آئے تو انہوں نے انہیں ٹھکرا دیا ، بلکہ ان میں سے بعض کو قتل بھی کر ڈالا ، انجام کار ان کی تمام عزت و ثروت چھن گئی اور بارہا ایسا ہوا کہ انہیں ظالم بادشاہوں کے ذریعہ عبرتناک تباہی سے دو چار ہونا پڑا ، نبوت بھی ، جو ہمیشہ اس قوم میں آتی ہے جسے خدا کو نوازنا منظور ہوتا ہے ، ان سے چھن گئی اور آخری پیغمبر حضرت محمد رسول ﷺ بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔ آپ رحمت عالم بن کر آئے تھے اب بھی موقع تھا کہ وہ آسمانی بادشاہت کی بشارت سنانے والے پرایمان لا کر اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل کر لیتے مگر غرور و تکبر کا نشہ ایسا نہ تھا جو اتر جاتا۔ آخر انہوں نے اس موقع کو بھی کھو دیا ۔
مختصر یہ کہ بنی اسرائیل کی تاریخ پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :
- کہ طغیان و سر کشی سے دلوں کی صلاحیت کھو جاتی ہے اور قلوب پر اس قدر تو بر تو پردے پڑ جاتے ہیں کہ ان میں خیر کے گھسنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
-
طغیان و سر کشی قوموں کی ہلاکت اور دنیا و آخرت دو نوں میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو بارہا اس سے رو کا گیا ۔ چنانچہ فرمایا کہ فَٱسۡتَقِمۡ كَمَآ أُمِرۡتَ وَ مَن تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطۡغَوۡاْۚ
تو تم جمے رہو جیسا کہ تمہیں حکم ملا ہے اور وہ بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ توبہ کیا اور کج نہ ہونا ۔ ( ھود : 112 )
مختلف مواقع پر صراحتہ ً و اشارةً مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ دیکھو تمہارا حال ویسا ہی نہ ہو جائے جیسا یہود کا ہوا ۔
استکبار کا سلبی پہلو
اب تک آپ کے سامنے استکبار کا ایجابی پہلو نمایاں کیا گیا ہے۔ اب سلبی پہلو پر بھی غور کر لیجئے کیونکہ و بضدّھا تتبیّن الاشیاء
قرآن پاک میں بے شمار آیتیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح تمام خرابیوں کی بنیاد تکبر ہے اسی طرح نیکیوں کا سر چشمہ خشیت ہے اور جس طرح تکبر سے ایمان اور رُشد و ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اسی طرح خشیت اور تقویٰ سے ایمان اور معرفت حق کی روشنی پیدا ہوتی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ انہیں لوگوں سے دعوت حق قبول کرنے کی امید کی جا سکتی ہے جن کے دل تکبر کے اثر سے بالکل پاک ہوتے ہیں ان کے کانوں میں صدائے حق پہنچتی ہے اور وہ اس کے نغمہ جاں نواز سے مست ہو جاتے ہیں گویا ان کی گم شدہ دولت تھی جس کی جستجو میں وہ مدتوں سر گرداں تھے ۔ سورہ مائدہ کی اس آیت پر غور کیجئے :
وَ لَتَجِدَنَّ أَقۡرَبَهُم مَّوَدَّةٗ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّا نَصَٰرَىٰۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنۡهُمۡ قِسِّيسِينَ وَ رُهۡبَانٗا وَ أَنَّهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُونَ
” اور تو مسلمانوں کی محبت میں سب سے نزدیک ان لوگوں کو پائے گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اس واسطے کہ ان میں قسیسین اور رہبان ہیں اس واسطے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ۔ ” ( مائدہ : 82 )
یہی وہ نصاریٰ ہیں جن کے سامنے آیات خداوندی کی تلاوت کی گئی تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور انہوں نے دعوت کا نہایت تپاک سے خیر مقدم کیا ۔
وَ إِذَا سَمِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَى ٱلرَّسُولِ تَرَىٰٓ أَعۡيُنَهُمۡ تَفِيضُ مِنَ ٱلدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُواْ
مِنَ ٱلۡحَقِّۖ يَقُولُونَ رَبَّنَآ ءَامَنَّا فَٱكۡتُبۡنَا مَعَ ٱلشَّٰهِدِينَ ٨٣ وَ مَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ ٱلۡحَقِّ وَ نَطۡمَعُ أَن يُدۡخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلصَّٰلِحِينَ ٨٤
” جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ ” پروردگار ! ہم ایمان لائے ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ” اور وہ کہتے ہیں کہ ” آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے۔” ( مائدہ : 83 – 84 )
ذرا ان کے کلام پر غور کیجئے ایک ایک لفظ سے ان کی شفیتگی کا اظہار ہوتا ہے گویا اسی مطلوب کے انتظار میں وہ گھڑیاں گن رہے تھے۔ لیکن یہ کون لوگ ہیں ؟ رُہبان و قسیسین ہیں ان کا خاص وصف یہ ہے کہ متکبر نہیں ہیں وَ أَنَّهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُونَ اس سے ما قبل یہود کا ذکر ہے جن کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن بتایا گیا ہے اور ان کا خاص وصف عصیان و فسق بتایا گیا ہے یہ دونوں وصف تکبر کے لازمی نتائج ہیں ۔
اس مسئلہ پر روشنی ڈالنے کے لیے سب سے زیادہ واضح آیت سورہ سجدہ کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کی آیتوں پر ایمان وہی لوگ لاتے ہیں جن کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو فوراً اپنے رب کی عظمت و جلال اور فضل و کرم کا پیام سن کر سجدے میں گر پڑتے ہیں اور یہ توفیق بھی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ متکبر نہیں ہیں ۔
إِنَّمَا يُؤۡمِنُ بَِٔايَٰتِنَا ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُواْ بِهَا خَرُّواْۤ سُجَّدٗاۤ وَ سَبَّحُواْ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَ هُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُونَ۩ ١٥
” ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔” ( سجدہ : 15 )
اس جگہ اسلوب کلام سے ظاہر ہو گیا ہے کہ خدا کی آیتوں پر ایمان کی تو فیق انہیں کو ہوتی ہے جن کے قلوب استکبار سے خالی ہیں۔ اب ذرا تذکیر کے مفہوم کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ افلاطون کا قول ہے کہ ” انسان کو جن چیزوں کا علم ہوتا ہے وہ اس کے باطن میں موجود ہیں۔ خارج سے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا ” یہ نظریہ کہاں تک صحیح ہے ہم کو اس سے بحث نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنے حقائق ہیں وہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں۔ وہ اس کی فطرت سے الگ کوئی چیز نہیں قرآن نے اسی حقیقت کو اس طرح تعبیر کیا ہے : اَ لَستُ بِرَبِّکُم قالوا بَلی ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ” سب نے کہا بیشک ہیں۔ لیکن اس مادی عالم میں رہ کر انسان غافل ہو جاتا ہے اور اس غفلت میں اپنی فطرت کی آواز سنائی نہیں دیتی اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے یاد دہانی کی جائے اور اسے غفلت سے بیدار کیا جائے تاکہ وہ اپنی فطرت کی آواز سن سکے اسی تنبیہ اور یاد دہانی کو ” تذکیر ” سے تعبیر کیا جاتا ہے اب جن پر غفلت کا حجاب ہلکا ہوتا ہے اور ان کے اندر فہم و تدبر کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو جب ان کے سامنے وہ آیات تلاوت کی جاتی ہیں جو حقائق کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو وہ فوراً اپنی فطرت کی آواز سن کر قبول کر لیتے ہیں لیکن جو اس ظاہری عالم کے مزخرفات میں بھولے رہتے ہیں اور عزت و جاہ اور دولت و ثروت کے نشہ میں سر شار ہوتے ہیں ان کے اندر سے فہم و تدبر کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے اور ان پر غفلت کی اس قدر سخت کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ حق کی آواز کسی طرح بھی سن نہیں سکتے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مستکبر ، مختال ، فخور اور اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔
( بشکریہ : ششماہی ” علوم القرآن ” علی گڑھ )