ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا
ہمارے دل میں ہے
ہمارے دل میں ہے
سر فروشی کی تمنا
اب ہمارے دل میں ہے
اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور
کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت
میں ترے اوپر نثار
میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا
چرچا غیر کی محفل میں ہے
چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی
اے ضعف کچھ چلتی نہیں
اے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی
تک پہلی ہی منزل میں ہے
تک پہلی ہی منزل میں ہے
رَہ روِ راہِ محبت
! رہ نہ جانا راہ میں
! رہ نہ جانا راہ میں
لذت صحرا نوردی
دوری منزل میں ہے
دوری منزل میں ہے
شوق سے راہِ محبت
کی مصیبت جھیل لے
کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز
پنہاں جادہ منزل میں ہے
پنہاں جادہ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں
قاتل کہہ رہا ہے بار بار
قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت
جن کے جن کے دل میں ہے
جن کے جن کے دل میں ہے
مرنے والو آؤ اب
گردن کٹاؤ شوق سے
گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے
خنجر کفِ قاتل میں ہے
خنجر کفِ قاتل میں ہے
مانعِ اظہار تم کو
ہے حیا ، ہم کو ادب
ہے حیا ، ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے
اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
میکدہ سنسان ، خم
الٹے پڑے ہیں ، جام چور
الٹے پڑے ہیں ، جام چور
سر نگوں بیٹھا ہے
ساقی جو تری محفل میں ہے
ساقی جو تری محفل میں ہے
وقت آنے دے دکھا
دینگے تجھے اے آسماں
دینگے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں
بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے
ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک
حسرت دلِ بسملؔ میں ہے
حسرت دلِ بسملؔ میں ہے
سید شاہ محمد حسن بسمؔل عظیم آبادی
( 1900 ء —- 1978 ء )
کے مجموعہ کلام ” حکایت ہستی
"سے ماخوذ
"سے ماخوذ