"کیا تمہیں تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی، تمہیں میں سے ایک آدمی کی معرفت تاکہ تمہیں ڈرائے اور تم ڈرو تو پر عجب نہیں کہ رحم کیا جائے لیکن انہوں نے نہ مانا تو ہم نے بھی ان کو اور ان کے ساتھیوں کو جو کشتی میں سوار تھے بچالیا اور جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ان کو ڈبو دیا، بے شک وہ اندھی قوم تھی۔”
اصحاب الرس
( وَ أَصْحَابُ الرَّسِّ ) (1) "اور رس والوں نے” رَس والوں سے مراد ہیں اصحاب اخدود جن کا ذکر تیسویں پارہ عم میں سورہ بروج میں ہے:
"بتائو برباد کردئیے گئے گڑھے والے، گڑھا کیا تھا کہ ایندھن بھری آگ تھی جب وہ لوگ گڑھے کے قریب بیٹھے ہوئے جو ستم مسلمانوں پر کرتے تھے، خود بھی دیکھے جاتے تھے۔”
حواشی
(1) "رَس” کے معنی کنویں کے ہیں۔ "اصحاب الرس” کے تعین میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کے حالات کی تفصیل قرآنِ کریم میں نہیں ملتی۔ عرب میں "الرس” کے نام سے دو مقام معروف ہیں ایک نجد میں اور دوسرا شمالی حجاز میں۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رقمطراز ہیں: "قرآنِ مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہلِ عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں۔” (تفہیم القرآن: 5/114) ابنِ جریر طبری و اکثر مفسرین کے نزدیک "اصحاب الرس” سے مراد "اصحاب الاخدود”ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں مصنف نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (تنزیل)