سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی، کراچی)
آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟
حالاں کہ تاریخ کے کسی دور میں کسی انسان کو زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکا، ہائیڈیگر تو کہتا ہے کہ انسان آزادہی ہے پھر آزادی کے کیا معنی انسان کو کوئی پابند نہیں کر سکتا لہٰذا آزادی کے مطالبے بے کار باتیں ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ہر شے خدا کی رضا کے تناظر میں پرکھی جائے گی اسلامی تہذیب کا خیر اعلیٰ، بندگی ہے۔ جو عہد الست کا نتیجہ ہے۔ خدا کی رضا کیا ہے وہ تم سے کیا مطالبہ کرتا ہے اس مطالبے کی تکمیل ہی عدل [Justice]ہے۔ اس کے سوا عدل کا ہر تصورظلم ہے جہل ہے۔ مغرب میں انسان مطلق آزاد فاعل خود مختار [Absolute Free, self autonomus being] حق خود ارادیت کا حامل [Self determin] ہے انسان کسی کو جواب دہ ہستی نہیں ہے۔لہٰذا آزادی کی قدر valueاور خیر Goodکے راستے میں کسی قسم کی روایتی ، الہامی، دینی، شرعی ، سماجی ، قبائلی ، گروہی، مذہبی، نسلی، اخلاقی ، قانونی، شرعی، فقہی، اجتماعی ، خاندانی ، قومی، علاقائی ، خاندانی ، لسانی ، پابندیاں برداشت نہیں کی جائیں گی، آزادی کے دائرے میں وسعت کی آزادی ہے کمی کی نہیں۔یہ شرف انسانیت کی توہین ہے۔ کیونکہ آزادی خیر مطلق ہے الحق ہے اس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور اگر کبھی جدید لبرل ریاست انسانی آزادی کوبہ ظاہر محدود کرتی ہے تو اس تحدید کے نتیجے میں مستقبل میں آزادی کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے بہ ظاہر پابندی اجتماعی طور پر مستقبل میں آزادی کے لا محدود امکانات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور آزادی کے لیے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کا ازالہ کرتی ہے ۔امریکہ کا قومی پرندہ عقاب ہے اگر کوئی اس کی توہین کرے ، اگر کوئی عقاب کو مار دے ، اس کے پر گھر میں رکھ دے تو آٹھ سال قید سے لے کر موت کی سزا ہو سکتی ہے، یہ ان کا تصور عدل ہے جو ان کے تصور خیر سے بر آمد ہوا ہے ۔ اس تصور عدل کو جو قبول نہیں کرے گا اسے مار دیا جائے گا۔ یہ آزادی کی نفی نہیں ہے۔کیوں کہ آزادی مطلق نہیں ہوتی کسی تصور خیر کے تابع ہوتی ہے لہٰذا اگر تصور خیر کو نقصان پہنچائے بغیر آزادی حاصل کی جائے تو کوئی سزا نہیں ملے گی ۔ اس وقت پانچ تصورات عدل مغرب میں رائج ہیں
(١)لبرل تصور عدل کے مطابق آزادی میں لا متناہی اضافہ کرتے چلے جانا فرد ،معاشرت، اجتماعیت، حکومت کا مشترکہ کام ہے اور ریاست کا بھی یہی کام ہے کہ وہ آزادی میں وسعت کوہر سطح پر ممکن بناتی رہے ۔ لبرل ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ ریاست اور مارکیٹ کے انضمام کے ذریعے آزادی کے حصول کو ہر انسان کے لیے ممکن بنادے لبرل تصور عدل مارکیٹ میں ریاست کی مداخلت کا حامی ہے۔
(٢)لبریٹرین تصور عدل بتاتاہے کہ مارکیٹ کے ذریعے آزادی کے حصول کو تمام انسانوں کے لیے ممکن بنانا ریاست کا اصل کام ہے ریاست مارکیٹ میں مداخلت نہیں کریگی ریاست کو مارکیٹ کے امور سے لا تعلق رہنا چاہیے اسے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ مطلق آزاد مارکیٹ کے نتیجے میں دنیا سے اسباب کی کمی Scarcityاور Persecutionکا نظام ختم ہو جائے گا۔
(٤) کمیونی ٹیرین تصور عدل یہ ہے کہ کمیونٹی کے تصور خیر کی روشنی میں معاشرتی عدل کی تشریح کی جائے گی عدل وہ ہوگا جو کمیونٹی کے تصور خیر سے ہم آہنگ ہوگا۔
(٥)نسائی تصور عدل [Feminst Conception of Justice] میں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں جن کے تصور عدل ایک دوسرے سے مختلف ہیں پہلے مکتب کا خیال ہے کہ مرد و عورت کی تخلیق ایک ہی مادے سے ہوئی ہے کچھ خصوصیات مرد میں ہیں اور کچھ عورت میں مرد openess،Brave, couragious، Expressiveخصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہ مسابقت حاکمیت competition and Mastryکی بہتر صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عورت جذبات حسن اور دوسروں کے دکھوں کو اپنے وجود کا حصہ بناکر خود میں سمونے کا ہنر جانتی ہے وہ emotions, beauty, Compassionکا آمیختہ ہوتی ہے لہٰذا عورت و مرد میں تفریق کرنے کے بجائے یہ مکتب فکر دونوں اصناف کی اعلیٰ خصوصیات کو ملا کر آئیڈیل معاشرتی انسان کا تصور دیتا ہے جو نہ مرد ہے نہ عورت بلکہ ان دونوں کی اعلیٰ شخصی کیفیات کا اجتماعی اظہار ہے۔ایسے معاشرے میں عدل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی دوسرا مکتب فکر کہتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کی قوت وطاقت کے دائرے میں جائز حصہ دیا جائے ۔ عورتوں مردوں کی تعداد برابر ہے لہٰذا نظام عدل و قوت میں عورت کو مرد کے مساوی حصہ ملنا چاہیے تیسرے مکتب فکر کا موقف یہ ہے کہ مردوں کے غلبے کی دنیا میں جب عورتیں اپنی حصہ مانگتی ہیں تو جن اقدار کو آئیڈیلائز کیا جاتا ہے وہ مردانہ اقدار ہی ہوتی ہیں جب ایسے نظام میں عورتوں کا حصہ مانگتے ہیں تو ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نظام اس کے طریقے کہ سب ٹھیک ہیں بس عورت کو حصہ دے دیا جائے یہ رویہ مردوں کی دنیا کو درست تسلیم کرنے کا رویہ ہے عورتوں کو نئی دنیا پیدا کرنی چاہیے نہ کہ وہ مردوں کی بنائی ہوئی دنیا میں اپنا حصہ تلاش کرنے میں مصروف ہو جائیں چوتھا مکتب فکر [Post feminist] عورت کی مظلومیت کے بجائے مرد کی مظلومیت کا اعلان کرتاہے اس مکتب کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ استحصال مردوں کا ہوتا ہے معاشرہ سارا بوجھ مرد پر ڈال کر اسے کچل دیتا ہے اسی لیے مرد کی عمر عورت سے کم ہوتی ہے۔ عورت مزے کرتی ہے مرد اس سے پہلے ہی بوجھ سے مر جاتا ہے عورت رو دھو کر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے مرد مردانگی کے باعث اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے وہ اندر ہی اندر گھلتا ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا مرد ایک مٹتی ہوئی مخلوق ہے اگلے پچاس برسوں میں اس کی آبادی صرف آٹھ فیصد رہ جائے گی مرد کم پیدا ہورہے ہیں ان کی شرح اموات بہت زیادہ ہے مسلسل مرد پر دباؤ سے مرد کا جنین کم زور ہورہا ہے مردوں کا دل عورت کے مقابلے میں زیادہ نازک ہے اسی لیے سب سے زیادہ لٹریچر مردوں نے پیدا کیا ہے عورت یہ کام نہیں کرسکتی کہ وہ سخت دل ہے مرد عورت سے اثر پذیر ہوتا ہے اسی لیے فنون لطیفہ مردانہ ہیں اس مکتب فکر کی توانا آواز Man against the wallنامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔عدل کے تصور کی تفصیل اس لیے دی گئی ہے کہ عہد حاضر میں عدل کی اصطلاح کثرت سے استعمال کی جاتی ہے اسے غیر اقداری اصطلاح تصور کرکے عدل کو ہر شے حتی کہ وحی سے بھی ماورا تصور کیا جاتا ہے اور یہ عقیدہ اختیار کیا جاتاہے کہ اخلاقیات، عدل وغیرہ وحی سے پہلے کی اقدار ہیں اور مجرد اقدار[absolute values] ہیں Rawlsاور امریتا سین نے عدل کے جدید مغربی تصور پر تفصیل سے لکھا ہے عدل کا مقصد مغرب میں آزادی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں اس آزادی کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں مثلاً لبرل ازم اور سوشلزم و نیشنل ازم میں آزادی ہر فرد کے لیے آزادی پرولتاریوں کے لیے آزادی قوم پرستوں کے لیے یا آزادی کسی اجتماعیت کے لیے ،طبقے کے لیے، نوع کے لیے، قوم کے لیے، نسل کے لیے مخصوص ہے لیکن سب کا عقیدہ آزادی ہی ہے اس کے مظاہر مختلف ہیں اصول میں یہ متفق ہیں اطلاق میں متفرق ہیںیعنی آزادی کے حصول کے طریقوں میں تو اختلاف ہے لیکن آزادی کے ایمان و یقین پر کوئی اختلاف نہیں عدل کی ہر وہ شکل جو انسان یا اجتماعیت کی آزادی میں رکاوٹ پیدا کرتی اورتحدید عائد کرتی ہے وہ عدل نہیں ظلم ہے عدل کا تقاضہ محض آزادی ہے ۔اسلام میں عدل کا تصور مغرب کے تصور عدل سے یکسر مختلف ہے کیونکہ دونوں تہذیبوں کا تصور حقیقت اور تصور الخیر سراسر مختلف ہے توحید اسلام میں عین عدل ہے اور شرک سراسر ظلم بلکہ قرآن کی نظر میں سب سے بڑا ناقابل معافی ظلم شرک ہے مغرب شرک کو ظلم نہیں سمجھتا یہ انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اجتماعی امور ریاستی حکمت عملی سے شرک کا کوئی تعلق نہیں مغرب کے عدل میں آزادی کے منافی ہر عمل، عقیدہ، نظریہ ، علم اور جہل ہے ۔ عدل کا تعین اگرصرف عقل سے کیا جاسکتاہے تو لازماً عدل کی تشریح میں اختلاف ہو جائے گا اس اختلاف کو کیسے رفع کیا جائے؟ اگر عدل ایک ہے تو پھر عدل کی بہت سی تشریحات عدل کو کیسے ممکن بنا سکتی ہیں عدل کے شارحین بہت سے ہوں تو اس تنوع اور تفرد میں اجتماعیت کیسے پیدا کی جائے گی اجماع کیسے ممکن ہوگا؟ اگر عدل کو طے کرنے کا علم آفاقی ہے تو اجماع ہوسکتا ہے مگر اس کا علم تو عقل کی میزان سے نکلتا ہے عقل جو اپنی تاریخ تہذیب جذبات ثقافت کی اسیر ہے۔
امریتا سین Amartyasenنے اپنی کتاب The Idea of Justice میں انسانی عقل کے ذریعے عدل کے تعین کے سلسلے میں ایک دلچسپ حکایت نقل کی ہے تین بچے آپس میں کسی کھلونے پر گتھم گتھا تھے ایک شخص موقع واردات پر پہنچا تو اس نے تینوں کو الگ کیا اور ماجرا پوچھا ایک بچے نے جواب دیا کہ ہم تینوں اس بانسری پر لڑرہے تھے میں بانسری بجا سکتا ہوں یہ دونوں بانسری بجانا نہیں جانتے لہٰذا اس کھلونے کا حق دار جائز مالک میں ہوں اس آدمی نے بانسری بچے سے چھین کر اس کے حوالے کردی دوسرا بچہ بولا آپ نے عدل نہیں کیا یہ ظلم ہے۔ میرا موقف سن لیجیے اس نے کہا بتاؤ بچے نے کہا کہ میں سب سے غریب بچہ ہوں میرے گھر میں کوئی کھلونا نہیں ہے یہ دونوں امیر ہیں ان کے گھر کھلونوں سے بھرے ہوئے ہیں لہٰذا اس بانسری کا اصل حقدار میں ہوں۔ آدمی نے پہلے بچے سے بانسری چھین کر اس کے حوالے کردیا۔ تیسرے بچے نے کہا آپ نے پھر عدل نہیں کیا میرا موقف سن لیجیے اس نے کہا سناؤبچے نے کہا یہ بانسری میں نے بنائی ہے یہ میری ملکیت ہے اس کا اصل مالک میں ہوںیہ میرے حوالے کی جائے ۔انسان جب بھی عقل کے ذریعے عدل تلاش کرے گا اسی طرح ٹھوکریں کھائے گا یہ تصور کرنا کہ عدل اور اخلاقیات ماورائے وحی ہے جدید مغربی تصور علم ہے جو وحی اور اللہ کے وجود کا ہی انکار کرتا ہے۔ عدل وہی ہے جو عقل کلی، حقیقت الحقائق کی وحی کے ذریعے آشکار ہوا ہے۔عدل ہمیشہ تصور حقیقت تصور الخیر یا ما بعد الطبیعیات ، ایمانیات ، اعتقادات سے نکلتا ہے۔مادہ پرست معاشرے میں عدل کا تصور سراسر مادی ہوگا زر پرست معاشرے میں عدل کا تصور زر میں اضافے کے محور پر ہوگا شہوت اور لذت پرست معاشرے میں شہوت و لذت کے راستے میں رکاوٹ عدل کے منافی ہوگی۔
انہی معنوں میں شریعت ، خدا کی رضا ہی عین عدل ہے دنیا کے ہر حصے میں انبیاء کرام آئے ہیں لہٰذا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اس الہٰی عدل اور آسمانی اخلاقیات کی کوئی نہ کوئی شکل باقی ہو اوران علاقوں کا تصور عدل—- عدل الہٰی کے قرآنی تصورات سے ہم آہنگ ہو—- ایسی تمام تعلیمات کو قرآن کی میزان فرقان پر پرکھا جائے گا جو اس کسوٹی کے مطابق ہوگی ان کو درست تسلیم کیا جائے گا۔ مغرب کے تصورات عدل کو بھی اسی اصول کے مطابق قرآن کے پیمانے پر پرکھا جائے گا اس کے سوا عدل کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ معتبر نہیں ہے۔ عدل کو پرکھنے کا پیمانہ ماورائے عدل ہے وہ زمین سے نہیں آسمان سے آتا ہے۔
جدید مسلم مفکرین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کائنات کا آغاز وحی اور نبوت کی روشنی سے ہوا ہے کائنات کے پہلے انسان اللہ کے پیغمبر تھے لہٰذا الٰہی عدل اور الٰہی اخلاقیات کا ظہور حضرت آدم کے وسیلے سے ہوا ہے لہٰذا عدل اور اخلاقیات کی اصطلاحات کو تصور حقیقت ، تصور نفس، تصور خیر ، تصور کائنات کے بغیر مجرد حق [Abstract Truth] کے طور پر قبول کرنا در اصل وحی الٰہی اور نبوت سے انکار کی شکل ہے۔
پاکستان نے تحریک آزادی کے ذریعے آزادی حاصل کی لہٰذا آزادی کا تصور ہمارے لیے ایک عظیم اصطلاح ہے ۔ ہم آزادی کو صرف غلامی کے تناظر میں دیکھتے ہیں اورآزادی کو ایک اہم نعمت تصور کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے ہم مغربی اصطلاح آزادی کے تصورات، مضمرات اور خطرات سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہم اس مغربی اصطلاح کے تاریخی تناظر اور فلسفیانہ تناظر کو نظر انداز کر کے صرف اس کے اردو ترجمے سے اپنی تاریخ کو ہم آہنگ کرکے آزادی کے لیے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہماری آزادی کی تحریک اپنے دینی اقدار و روایا ت قرآن و سنت سے آزاد نہیں تھی بلکہ اس تحریک آزادی کا بنیادی جزو یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی آزادی نہیں ہے یہاں ہماری تہذیب معاشرت محفوظ نہیں یہ دارالحرب ہے لہٰذا ایک الگ دارالاسلام کا قیام ضروری ہیتاکہ ہم آزادی کے ساتھ اپنے دین، اقدار ، روایات پر عمل کرسکیں مغرب آزادی کے کسی ایسے تصور کو تسلیم نہیں کرتا جو تحریک آزادی پاکستان کی مذہبی بنیادوں سے اخذ کیا گیا ہو۔ مذہب آزادی نہیں پابندی کا نام ہے آزادی کا لبرل سیکولر قوم پرست سوشلسٹ عقیدہ بھی اپنی پابندیوں یعنی ارادہ عامہ [General will]کے دائرے میں ہوتاہے اس دائرے سے ماوراء آزادی نہیں مل سکتی آزادی کا ایمان قبول کرنے کی آزادی ہے آزادی کو ختم کرنے کی آزادی حاصل نہیںہے ، سرمایہ میں اضافے کرنے کی آزادی ہے سرمایہ کا نظام ختم کرنے کی آزادی نہیں ہے جمہوریت قبول کرنے کی آزادی ہے مگر سو فی صد اکثریت Popular will کے ساتھ بھی ارادہ عامہ General will کے خلاف حق ملکیت ، حق زندگی، آزادی اور جمہوریت کو سو فی صد رائے عامہ کے ساتھ بھی مسترد کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ UNO جمہوریت خود آمریت ہے جمہوریت خود ایک ایمان عقیدہ مذہب ہے ، مذہب تبدیل نہیں ہو سکتا ، اس کے اصول حتمی ہوتے ہیں کے منشور بنیادی حقوق کے تحت تمام انسان برابر ہیں تمام قومیں برابر ہیں لیکن اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے پانچ اراکین کو تین سو قوموں پر برتری حاصل ہے یہ پانچ قومیں اکثریت کے جس فیصلے کو ویٹو کرنا چاہیں کرسکتی ہیں حتی کہ اگر ان پانچ میں سے چار اراکین اور دنیا کی تین سو قومیں ایک فیصلے پر متفق ہو جائیں تب بھی صرف ایک رکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تمام قوموں کی رائے مسترد کردے ۔ یہ ہے آزادی اور جمہوریت کے فلسفے کا عملی ثبوت جو منشور بنیادی حقوق نافذ کرنے والی اقوام متحدہ کا زندہ عمل ہے اور دنیا کی تمام قومیں اس غیر عقلی اصول کو قبول کرتی ہیں اور اس کے تحت تمام فیصلے خوش دلی سے انجام دیتی ہیں ۔ لبرل ریاست سرمایے کی غلامی خواہش نفس کی اسیری اپنے جذبات کی بے لگام پیروی کے ہر تصور کو بخوشی قبول کرتی ہے لیکن خدا، مذہب، اقدار ، رسوم و رواج کی غلامی کو قبول نہیں کرتی۔ لبرل آرڈر میں مذہبی ریاست ، اسلامی ریاست قائم ہی نہیں ہو سکتی یہ آزادی کے تصور خیر کے منافی ہے کیونکہ مذہبی ریاست زندگی کے ہر پہلو پر کوئی نہ کوئی مذہبی حکم عائد کرکے انسان کی آزادی میں مسلسل اور مستقل کمی کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔منشور بنیادی حقو ق میں کسی مذہبی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دی گئی ہر فرد اپنی ذاتی زندگی میں یقیناً کوئی بھی مذہب اختیار کرسکتا ہے اور اس مذہب کے مطابق صرف خود عمل کرسکتا ہے اپنے بیوی بچوں کو بھی اس مذہب پر چلانے کے لیے جبر نہیں کرسکتا ایسا کرنا ظلم ہے دوسرےthe otherکی آزادی میں مداخلت ہے قابل سزا جرم ہے ۔ منشور بنیادی حقوق صرف فرد کے حق کا تحفظ کرتا ہے لہٰذا اس کا مخاطب صرف فرد ہے خاندان گروہ قبیلہ نہیں۔اس تناظر میں تحریک پاکستان کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاح آزادی کا تجزیہ کیجیے تو وہ مغرب کی اصطلاح فریڈم ]نامکمل ترجمہ آزادی[سے بالکل مختلف چیز ہے۔ ظاہر ہے تحریک پاکستان کا مقصد دین کا غلبہ تھا نہ کہ مسلمانوں کو دین سے آزاد کرنا۔ تحریک آزادی کے کسی رہ نما بلکہ قائد اعظم نے بھی کبھی اسلام سے آزادی کا مطالبہ نہیں کیا ۔ پاکستان کی پوری تحریک غلبہ دین کے نقطۂ ماسکہ Grand narrativeکے گرد گھومتی تھی یہ تحریک صرف اور صرف اسلام کو الحق اور العدل سمجھتی تھی مغرب کے تصور آزادی اور اس آزادی کے نفاذ و نفوذ کو ممکن بنانا اس تحریک کا ہر گز مقصد نہیں تھا لبرل یا آزاد یا آزادی کا طلب گار وہ شخص ہے جو فرد کے انفرادی و اجتماعی دائرے کی آزادی کو لا محدود کرنا چاہتا ہے ۔ لبرل ازم صرف آزادی کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ آزادی کے حصول کے لیے ایک نظام زندگی ،نظام معاشرت و معیشت عقائد و اقدار اور اس نظام کے نفوذ کے لیے قوت، تشدد، جبر سے لبرل اداروں کی تعمیر تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے ۔ لبرل ازم انسانیت پرست [Humanist] فلسفہ ہے ۔ مغرب میں پہلے عیسائی معاشرہ تبدیل ہوا ، آزادی کو الخیر کے طور پر پیش کیا گیا ۔ اس سیکولر تصور کی کچھ مذہبی تعبیرات دینی تشریحات بھی پیش کی گئیں انسا ن کو فسق و فجور پر اکسایا گیا ۔ تمام سطحوں پر خواہ وہ علمی، تحقیقی ، ادبی، جمالیاتی ، فکری ، فلسفیانہ ، ہی کیوں نہ ہو آزادی کو ایک آفاقی قدر کے طور پر پیش کیا گیا۔ دنیا کی تیئس تہذیبوں میں آزادی قدر[Value] نہیں صلاحیت [Ability]تھی خیر و شر میں فرق کرنے کی ، اجالے سے اندھیرے میں حد فاصل قائم کرنے کی۔مغرب میں آزادی ہر قسم کی رکاوٹوں، پابندیوں، حد بندیوں کے خاتمے کا نام ہے Freedom is the absence of limitations مغرب میں یہ آزادی خیر کو خلق [Creation of Good] کرنے کا نام ہے۔ خیر کے تعین کا اختیا ر ہے یہ انسان کا حق ہے کہ وہ خیر کو خلق کر سکے ۔آزادی انتخاب خیر[Choice of Good] کی نہیں تخلیق خیر [Creation of Good]کی آزادی ہے ۔ جبکہ تاریخی ،روایتی ، دینی ،الہامی، معاشروں میں خیر خلق نہیں ہو سکتا وہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ونگسٹائن جیسا فلسفی بھی یقین رکھتا ہے کہ اقدار باہر سے آتی ہیں۔آزادی جب قدر تسلیم کی جائے تو ایسے معاشرے میں سب اپنے اپنے تصورات خیر تخلیق کرنے میںمطلق آزاد ہوتے ہیں ہر تصور خیر یکساں حیثیت رکھتا ہے ، گھاس کی پتی گننے والا ، شراب پینے والا، زنا کرنے والا، ، تہجد پڑھنے والا ، سب مساوی ہیں کیوں کہ سب حق آزادی[Right of Freedom]، حق خود مختاری، حق خود اختیاری[Right of self determination] استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے تصور خیر پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ روادار ،متنوع ، مختلف النوع گروہوں پر مشتمل معاشرہ ہے ۔ خیر ریاست کا نہیں فرد کا معاملہ ہے ریاست کا کام ہر شخص کی آزادی کا تحفظ ہے تمام تصورات خیر یکساں ہیںکسی کو کسی دوسرے خیر پربالاتری، برتری کی اجازت نہیں۔ سب لوگ الحق [Good]کی بنیاد پر نہیں حق [Right]کی بنیاد پر اپنے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں، اسی کا نام حقوق کی سیاست ،حقوق کی علمیت ، حقوق کی مابعد الطبیعیات اور جدیدیت کا غلبہ ہے جو ماڈرنٹی اور ماڈرنائزیشن کے ذریعے تکمیل پذیر ہوتا ہے۔اس کی ایک تنقید بھی ہے جسے پس جدیدیت یا پوسٹ ماڈرنٹی بھی کہا جاتاہے یہ اصلاً جدیدیت کا رد نہیں جدیدیت کی توسیع ہے There is modernity after post modernity ان اصطلاحات میں فرق جاننے کے لیے درج ذیل عبارتیں پڑھیے:
Enlightenment is man’s release from his self-incurred tutelage. Tutelage is man’s inability to make use of his understanding without direction from another. Self-incurred is this tutelage when its cause lies not in lack of reason but in lack of resolution and courage to use it without direction from another. Sapere aude! "Have courage to use your own reason!”- That is the motto of enlightenment.
Laziness and cowardice are the reasons why so great a portion of mankind, after nature has long since discharged them from external direction (naturaliter maiorennes), nevertheless remains under lifelong tutelage, and why it is so easy for others to set themselves up as their guardians. It is so easy not to be of age. If I have a book, which understands for me, a pastor who has a conscience for me, a physician who decides my diet, and so forth, I need not trouble myself. I need not think, if I can only pay – others will easily undertake the irksome work for me.
For any single individual to work himself out of the life under tutelage, which has become almost his nature is very difficult. He has come to be fond of his state, and he is for the present really incapable of making use of his reason, for no one has ever let him try it out. Statutes and formulas, those mechanical tools of the rational employment or rather misemployment of his natural gifts, are the fetters of an everlasting tutelage. Whoever throws them off makes only an uncertain leap over the narrowest ditch because he is not accustomed to that kind of free motion. Therefore, there are few who have succeeded by their own exercise of mind both in freeing themselves from incompetence and in achieving a steady pace.
For this enlightenment, however, nothing is required but freedom, and indeed the most harmless among all the things to which this term can properly be applied. It is the freedom to make public use of one’s reason at every point. But I hear on all sides, "Do not argue!” The Officer says: "Do not argue but drill!” The tax collector: "Do not argue but pay!” The cleric: "Do not argue but believe!” Only one prince in the world says, "Argue as much as you will, and about what you will, but obey!” Everywhere there is restriction on freedom. [http://lancefuhrer.com/what_is_enlightenment.htm]
So the full concept of negative freedom amounts to independence of man from world and God [Page 5 2002 Continum London]